شاید پختہ ایمان اور یقین اسی کو کہتے ہیں … اللہ میاں پر پختہ ایمان اور یقین کی اس سی بڑی مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتی ہے … ہم تو یوں ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ میاں پر ایمان ہے… یقینا ہمیں اللہ میاں پرایمان ہے‘ لیکن… لیکن جس درجے کا ایمان اپنے ڈار صاحب … پاکستان کے وزیر خارجہ ‘ اسحاق ڈا ر صاحب کا ہے… یقین کیجئے ‘ اس درجے کا ایمان ہمارے پاس نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہمسایہ ملک اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے… اس کی مالی حالت خراب ہے‘وہاں ڈالر روپے کے مقابلے میں روز نئی بلندیوں کو چھورہا ہے… مہنگائی ساتویں آسمان پر ہے‘اس سے آگے جاتی ‘ لیکن… لیکن اسے ڈر ہے کہ اس کے بھی پر نہ جل جائیں … لوگوں کو دوقت کی روٹی نصیب نہیں ہو رہی ہے…لوگ آٹے کی بوریوں کے پیچھے ایسے بھاگتے ہیں جیسے سومالیہ میں کئی صدیوں سے بھوکے لوگ کھانے کے پیکٹ کے پیچھے دوڑتے ہیں…یہ منظر دیکھ کر یقین نہیںہو رہا ہے کہ کیا سچ میں یہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے یا صومالیہ ۔ایسے میں ڈار صاحب کا کام یقینا مشکل ترین ہے… اور جب ان سے ملک کی مالی حالت میں سدھارنے کے بارے میںپوچھا گیا ‘ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال پر ان سے جواب طلب کیا گیا تو… تو انہوں نے جو جواب دیا وہ بطور ایک وزیر خزانہ کسی نے نہیں دیا ہو گا کہ… کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حفاظت ‘ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذمے ہے ۔ اب ا س سے زیادہ اللہ پر ایمان اور پختہ یقین ہم نے نہیں دیکھا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں دیکھا ہے ۔یعنی اس ملک کے ساتھ جو کچھ بھی ہو جائے … اچھا یا برا ‘ یہ ذمہ داری ‘ اس کی ذمہ داری بھی بے چارے اللہ میاں کے کندھوں پر ہے… جیسے اللہ میاں کے پاس دوسرے کام اور ذمہ داریاں کم تھے جو ڈار صاحب نے انہیں اپنے ملک کی حفاظت ‘ترقی اور خوشحال کا کام بھی آؤٹ سورس کیا ۔اگر پاکستان کی حفاظت ‘ ترقی اور خوشحالی کا کام اللہ میاں کی ذمہ داری ہے تو… تو پھر پاکستان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں فوج کیوں ؟اگر ترقی اور خوشحالی بھی اللہ میاںکے ذمہ ہے تو پھر ڈار صاحب ملک کی مالی حالت سدھارنے کیلئے برسوں بعد لندن سے کیوں نازل ہو ئے … اور … اور اگر اللہ میاں ہی ہمسایہ ملک کے معاملات چلاتا ہے تو… تو پھر خان صاحب… عمران خان صاحب کو ڈار صاحب کی جماعت نے اقتدار سے بے دخل کیوں کیا ۔اس کی ضرورت کیا تھی… کہ ملک تو اللہ میاں چلاتا تھا ‘ خان صاحب نہیں ‘ بالکل بھی نہیں۔ ہے نا؟