سرینگر//
وادی کشمیر کے نامور شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ قلمکار پروفیسر رحمان راہی پیر کی علی الصبح اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے ۔
ذرائع نے بتایا کہ پروفیسر رحمان راہی نے پیر کی علی الصبح سرینگر کے واژرناگ نوشہرہ علاقے میں واقع اپنی رہائش پر زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ وہ۹۸برس کے تھے ۔
مرحوم کو بعد نماز ظہرین اپنے آبائی مقبرے واقع نوشہرہ میں سپرد خاک کیا گیا ۔ان کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں، جن میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ بڑی ہستیاں شامل تھیں، شرکت کی۔
مرحوم شاعر کے درجنوں شعری مجموعے منظر عام پر آئے ہیں جنہیں ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔
نوجوان شاعر اور کشمیری زبان و ادب کے ایک اسکالر آصف سافل نے یو این آئی کو بتایا کہ نے راہی کی کشمیری زبان و ادب کے تئیں خدمات کو تا ابد یاد رکھا جائے گا۔
سافل نے کہا’’راہی صاحب نے ایک نئی راہ اختیار کرکے نثری نظم کو ایک منفرد معیار عطا کیا اس کے علاوہ مرحوم مغربی ادب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے قلمکار تھے ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ راہی صاحب کی غزل کا آہنگ بھی سب سے منفرد و مختلف تھا‘‘۔
راہی کو سال۲۰۰۷میں سال۲۰۰۴کے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ سے سر فراز کیا گیا۔ یہ ایوارڈ انہیں شعری مجموعے ’سیاہ رود جیرن منز‘کے لئے دیا گیا۔ انہیں سال۱۹۶۱میں ان کے شعری مجموعے ’نوروز صبا‘ کیلئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور سال۲۰۰۰میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
پروفیسر رحمان راہی گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے کشمیری قلمکار ہیں۔ انہیں سال۲۰۰۰میں ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی‘ نے ساہتیہ اکیڈکی فلو شپ سے نوازا تھا۔
راہی نے اپنے کیرئر کا آغاز سال۱۹۴۷میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں ایک کلرک کی حیثیت سے کیا۔ بعد ازاں وہ ایک اخبار کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہوگئے ۔انہوں نے سال۱۹۵۲میں فارسی میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں ایک دہائی بعد انگریزی میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
مرحوم شاعر کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ کشمیری کے بنیاد گذار ہیں اور ان کی رہنمائی میں ہزاروں کی تعداد میں اسکالروں اور طلبا نے پنے تعلیمی و ادبی منازل طے کئے ہیں۔
پروفیسر رحمان راہی کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی وادی کے ادبی حلقوں کے افق پر مایوسی اور ماتم کے گہرے بادل سایہ فگن ہوگئے اور سوشل میڈیا کی فیس بک اور ٹویٹر سائٹوں پر قلمکاروں اور صحافیوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات اور مرحوم کے ساتھ یاد گار لمحات کی تصویریوں کا سیلاب امڈ آیا۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ شعبہ کے جملہ اسٹاف ممبران و طلبا پروفیسر رحمان راہی کے انتقال پر انتہائی غمزدہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ کشمیری زبان و ادب کے تئیں مرحوم کے شاندار کنٹریبیوشن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
معروف شاعر علی شیدا نے اپنے ایک پوسٹ میں مرحوم شاعر کو خراج عقیدیت پیش کرتے ہوئے کہا’’کشمیری زبان و ادب کے سرخیل جنہوں نے ایک تاریخ رقم کر دی اور اپنے پیچھے ایک ایسی راہ تعمیر کرکے چھوڑ دی جو صدیوں تک ادب اور لسانیات کے مسافروں کو اپنے منازل طے کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوگی‘‘۔
شیدا نے لکھا’’راہی صاحب اپنے لئے راہی تھے مگر کشمیری ادبا و شعرا کیلئے ایک رہبر بن کر انہیں نئی منزلوں کی اور گامزن ہونے ے راستے متعین کرتے رہے ‘‘۔جموں وکشمیر کی جملہ چھوٹی بڑی ادبی تنظیموں نے پروفیسر حمان راہی کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے ۔
راہی ۶مئی ۱۹۲۵کو سرینگر میں پیدا ہوئے تھے۔