تحریر:ہارون رشید شاہ
نہیں صاحب یہ جو ہورہا ہے … ٹھیک نہیں ہو رہا ہے اور… اور بالکل بھی ٹھیک نہیں ہو رہا ہے ۔ اس بات کے کوئی معنی نہیں ہیں‘ کوئی جواز نہیں ہے کہ آپ نہتوں پر حملہ کرکے انہیں زخمی یا ہلاک کردیں … پھر چاہیں وہ نہتے ملک کشمیر کے بسکین اور شہری ہوں یا پھر ملک کے کسی اور حصے کے ۔ صاحب اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ کچھ ایک دنوں سے جنونی کشمیر میں غیر ریاستی مزدوروں پر حملے کئے جا رہے ہیں…کیوں کئے جا رہے ہیں… ہم نہیں جانتے ہیں ۔غیر ریاستی مزدور ملک کشمیر اپنی روزی روٹی کمانے آتے ہیں… یہاں اپنی خدمات فراہم رکھ کر مقامی آبادی کے کام آتے ہیں… بالکل اسی طرح جس طرح ملک کشمیر سے بھی لوگ روزی کمانے کیلئے ملک کے دوسرے حصوں میں جاتے ہیں… اگر اس دوران ان پر کہیں پر حملہ ہو تا ہے‘ کہیں پر ان کی پٹائی کی جاتی ہے تو… تو پورے ملک کشمیر کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے … اور یہی آگ ‘ ایسی ہی آگ ملک کے دوسرے حصوں میں اُس وقت لگ جاتی ہے جب کسی غریب مزدور یا کاریگر پر گولیوں کی بر سات کی جاتی ہے …اور یہ سلسلہ اب گزشتہ کچھ ایک برسوں سے جاری ہے… پچھلے سال بھی کچھ اسی نوعیت کے حملے ہو ئے تھے اور امسال سیزن کی شروعات کے ساتھ ہی انہیں دہرایا جارہا ہے ۔آج کئی برسوں بعد ملک کشمیر میں سیاحتی سیزن کی اچھی شروعات ہو ئی ہے اور … اور توقع کی جا رہی ہے کہ امسال ریکارڈ تعداد میں لوگ ملک کشمیر آئیں گے … لیکن اگر یہ حملے اسی طرح جاری رہیں تو یقینا اس کا اثر… منفی اثر سیاحت پر پڑے گا … یہاں کی معیشت پرپڑے گا ‘ روز گار پر پڑے گا … عام لوگوں پر پڑے گا ‘ کشمیریوں پر پڑے گا … کیا حملہ آور بھی یہیں چاہتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہوٹل مالکان‘ہاؤس باوٹ والے ‘ گاڑی مالکان اور دوسرے انگنت لوگ ‘ جو اس شعبہ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جڑے ہیں‘ ایک بار پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں اور… اور اس فکر میں مبتلا ہوں کہ بینک کی اگلی قسط کیسے ادا کی جائیگی …اگر یہ حملہ آور یہیں کچھ چاہتے ہیں تو… تواللہ میاں کی قسم وہ یقینا ملک کشمیر اور کشمیریوں کے ہمدرد نہیں ہو سکتے ہیں… ان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ہیں اور … اور بالکل بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہے نا؟