بے گناہ اور غیر مسلح شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور متواتر حملوں کے نتیجہ میں کشمیر ایک بار پھر چوراہے پر کھڑا نظرآرہاہے۔ معاشرتی سطح پر قیام امن کی چاہت اور مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں فضا جو نہی پرسکون ہوتی دکھائی دیتی یہ تو اچانک کہیں نہ کہیں سے اس فضا کو مکدر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
فورسز اور جنگجوئوں کے درمیان تصادم ایک الگ اشو ہے لیکن عام شہریوں پر بڑھتے حملے اور فائرنگ کے واقعات اب ایک نئی تشویش کا موجب بن رہے ہیں۔ حملے چاہئے غیر مسلم دکانداروں اور کاروباریوںپر کئے جائیں، غیر مقامی مزدوروں کو نشانہ بنا یا جائے یا چھٹی پرگھرآئے کسی اہلکار کو مخصوص طور سے نشانہ بنایاجائے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔ ان کا قصور کیا ہے؟ گذشتہ پندرھواڑے کے دوران کم سے کم ایسے چھ واقعات پیش آئے جن میں غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنایاگیا۔
کشمیر میں عسکریت کے ابتدائی ایام میں مخبری، حکومت کیلئے کام کرنے، ان کے بقول عسکری تحریک کی مخالفت کرنے یا دوسرے سیاسی عنادوں اور مخصوص سیاسی نظریات کو لے کر شہریوں اور سیاسی ورکروں کو نشانہ بنایاجاتا رہاہے، ان مسلسل حملوں اور واقعات کا عالمی سطح پر بھی منفی ردعمل سامنے آتارہا اور داخلی سطح پر بھی لوگ اپنی ناپسندیدگی اور بے چینی کا برملا اظہار کرتے رہے۔ ان کارروائیوں کے منفی ردعمل میں کشمیر کی سیاحت پہلی کیجولٹی بن گئی۔ ہزاروں گھرانے جو سیاحت سے بلواسطہ اور بلاواسطہ وابستہ ہیں کی روٹی روزی چھن گئی، بینکوں سے جن لوگوںنے ٹرانسپورٹ، ہوٹل، ریستوراں، ہائوس بوٹ ،شکارا ،گھوڑے اور خچروں کی خریداری، وغیرہ شعبوں کی تزئین ومرمت اور بُنیادی ڈھانچہ مضبوط ومستحکم بنانے کیلئے قرضے حاصل کئے تھے وہ ان ہی قرضوں کے بوجھ میں ایسے ڈوب گئے کہ پھر واپس اُبھر نہ سکے۔
اس صورتحال کے نتیجہ میں کشمیرکی معیشت کے دوسرے کئی شعبے بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے، متوازن معیشت زمین بوس ہوگئی، بے روزگاری کا دیو سروں پر مسلط ہوا، جبکہ معاشرتی سطح پر بہت ساری بدیوں کا بھی جنم ہوا۔ اب عین اس وقت جبکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو کچھ حد تک سانس لینے کی مہلت نصیب ہوتی رہی، اس سال مارچ کے مہینے میں ایک لاکھ ۸۰؍ ہزار کے قریب ملکی اور غیر ملکی سیاح واردِ کشمیر ہوئے، جو دس سال کے بعد سیاحوں کی کشمیر آمد کے حوالہ سے ایک ریکارڈ ہے کشمیر میں خون اور موت کا رقص بسمل پھر سے شروع ہوگیا ہے۔
کیا بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنائے جانے سے حملہ آوروں کا کوئی خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ اگرایسا ہوتا تو گذشتہ ۳۳؍سال کے دوران اس تعلق سے جتنے بھی ناخوشگوار اور دلخراش واقعات پیش آئے ایسے خواب شرمندہ تعبیرہوچکے ہوتے ، لیکن ایسانہیں ہوسکا کیونکہ تشدد، تخریب اور فساد امن کا متبادل ہے اور نہ ہی کسی مسئلے کا حل۔
جموں وکشمیر سے باہر کی ریاستوں اور علاقوں سے جو لوگ روزی روٹی کے تعلق سے کشمیر آتے ہیں وہ کشمیر کی ترقی اور تعمیراتی شعبے میںاپنی خدمات کے حوالہ سے کلیدی کرداراداکررہے ہیں۔ وہ کشمیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ اپنی خدمات روزی روٹی کے عوض وقف کرکے کشمیرکی مدد کررہے ہیں۔ انہیں حملوں کا نشانہ بناکر کیا حاصل کیاجاسکتاہے بلکہ الٹاردعمل اب تک یہی سامنے آیا ہے کہ ان کی ریاستوں میں جو کشمیر ی طالب علم، کاروباری اور پھیرے والے اپنی جائز سرگرمیوں اور مصروفیات کے حوالہ سے مقیم ہیں وہ ردعمل میں حملوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں ۔ انہیں مختلف طریقوں اور بہانوںکی آڑ لے کر تنگ اور ہراساں کیاجارہاہے۔ مہینوں جیلوں میں قیدرکھ کر ان کے حال اور مستقبل کومخدوش بنایاجارہاہے ۔ اس ردعمل کا احساس حملہ آوروں کو کیوںنہیں؟
اس بات سے اتفاق کرنے کی گنجائش ہے کہ اس نوعیت کے حملوں سے کشمیر کی معیشت اور اس معیشت کی بُنیادوں کو ناقابل حد تک نقصان پہنچ رہاہے جس کی ماضی کے واقعات کے حوالہ سے اب تک تلافی ممکن نہیں ہوسکی تو آنیو الے مستقبل کے تعلق سے یہ تلافی کیسے ممکن ہوگی! یہ راستہ اب تک بحیثیت مجموعی کشمیر کیلئے باعث تکلیف بھی بنا ہے اور مصیبتوں کا موجب بھی ، بدحالی اور پریشانیاں الگ سے ۔
اس منظرنامہ کا دوسرا پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے ۔کشمیر میںملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کے جو جتن کچھ عرصہ سے کئے جارہے ہیں اور اب تک جن سرمایہ کاروں نے کشمیر میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے یا باہمی معاہدوں پر دستخط ثبت کئے ہیں حملوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ یا نئی لہر شاید سرمایہ کاروں کے ارادوں پر اثرانداز ہو اور وہ کشمیرمیں اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ بھی واپس کھینچ لینے کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں ۔اُس صورت میں بھی نقصان بڑے پیمانے پر کشمیر کا ہی ہوگا۔
سیاحوں کو کشمیر کی سیاحت کی طر ف راغب کرنے کیلئے انتظامی سطح پر متعلقہ سٹیک ہولڈر وں کے اشتراک سے جو اقدامات اور کوششیں کی جارہی ہیں ان کے طفیل کشمیرمیں آئندہ دوماہ تک کیلئے تمام ہوٹل وغیرہ پیشگی بک ہیں۔ اس تعلق سے معمولی سی چنگاری ان ساری کاوشوں کو زمین بوس کرکے رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا سٹیک ہولڈروں کیلئے بھی یہ صورتحال ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ عوامی سطح پر اشتراک اور تعاون حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قیام امن کو ہر قیمت پر ممکن بنانے کی سمت میں ہی سیاحتی سیزن کو جہاں کامیاب بنایا جاسکتا ہے وہیں کشمیر کی ڈوبتی معیشت کو بھی ایک نیا سہارا ہاتھ آنے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔