سرینگر//
جموں و کشمیر پولیس نے ہفتہ کو کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال جنگجوؤں کی بھرتیوں میں۳۷ فیصد کمی آئی ہے۔
اے ڈی جی پی کشمیر، وجے کمار نے ایک ٹویٹ میں کہا’’اس سال، دہشت گردوں کی صفوں میں ۱۰۰ تازہ بھرتیوں کی اطلاع ملی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں۳۷ فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ۷۴ لشکر طیبہ میں شامل ہوئے۔ کل بھرتیوں میں سے، ۶۵دہشت گردوں کو انکاؤنٹر میںہلاک کر دیا گیا‘۱۷ دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا اور۱۸ دہشت گرد اب بھی سرگرم ہیں‘‘۔
کمار نے کہا کہ ۲۰۲۲میں کشمیر میں۹۳کامیاب مقابلے ہوئے جن میں ۴۲غیر ملکی دہشت گردوں سمیت ۱۷۲دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے مزید کہا’’زیادہ سے زیادہ دہشت گردوں کو لشکر طیبہ/ٹی آر ایف(۱۰۸) تنظیم سے ہلاک ہو ئے‘ جس کے بعد جیش محمد (۳۵)‘حزب المجاہدین (۲۲)‘البدر (۴) اور اے جی یو ایچ سے(۳) شامل ہیں‘‘۔
اے ڈی جی پی نے کہا کہ نئے بھرتی ہونے والے دہشت گردوں کی عمر میں اس سال بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’اس سال مارے گئے کل۶۵ نئے بھرتی ہونے والے دہشت گردوں میں سے‘۵۸ (۸۹فیصد) کو ان کی شمولیت کے پہلے مہینے کے اندر ہی ہلاک کر دیا گیا‘‘۔
اے ڈی جی پی نے ٹویٹس کی ایک سیریز میں کہا کہ اس سال بھاری مقدار میں ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ ۳۶۰ ہتھیار جن میں ۱۲۱؍ اے کے سیریز کی رائفلیں‘۸؍ایم ۴ کاربائن اور۲۳۱پستول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ‘آئی ای ڈیز، سٹکی بموں اور دستی بموں کو بروقت پکڑنے سے دہشت گردی کے بڑے واقعات ٹل گئے۔
شہری ہلاکتوں پر‘ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ۲۹ شہری مارے گئے، جن میں۲۱مقامی باشندے (۶ہندو‘ جن میں ۳کشمیری پنڈت‘ اور ۱۵ مسلمان شامل ہیں) اور آٹھ دیگر ریاستوں سے تھے۔ کمار نے کہا’’ان دہشت گردی کے جرائم میں ملوث تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے سوائے باسط ڈار اور عادل وانی کے جنہیں جلد ہی ختم کر دیا جائے گا‘‘۔
اے ڈی جی پی نے کہا کہ اس سال سیکورٹی فورسز کے ۲۶؍ اہلکار ہلاک ہوئے جن میں جموں کشمیر پولیس کے ۱۴پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان کاکہنا تھا’’سال کے دوران‘۱۴ جے کے پی اہلکاروں سمیت سیکورٹی فورسز کے کل۲۶؍ اہلکار دہشت گردانہ حملوں/ مقابلوں کے دوران شہید ہوئے۔ ان دہشت گردی کے جرائم میں ملوث دہشت گردوں کی اکثریت کو مارا گیا ہے‘‘۔
کمار نے کہا کہ انہوں نے معاشرے میں دو ’نمایاں تبدیلیاں‘ دیکھی ہیں۔’’گھر کے مالکان نے دہشت گردوں کو پناہ دینے سے انکار کرنا شروع کر دیا اور اگر ان کے بچے دہشت گردی میں شامل ہو جائیں تو والدین کو فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ان سے واپس آنے کی اپیل کرتے ہیں، دہشت گردوں کو کھلے عام لعنت بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کی واپسی کیلئے جے کے پی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘