مذہب کی بُنیاد پر کشمیرمیں ہلاکتوں کے بعض واقعات کو دیکھنے کی روش سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے واضح کیا ہے کہ ’کشمیرمیں بہت سے دوسرے لوگ بھی مارے گئے ہیں جن کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ ان ہلاکتوں پر جھوٹی داستانیں پھیلائی جارہی ہیں۔‘
زمینی حقائق کو بیان کرنا ہی حقیقت پسندی ہے، منوج سنہا نے اسی حقیقت پسندی کا برملا اظہارکیا ہے اور ملک میںان عنصروں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کردی ہے جو کشمیراور کشمیریوں کوعفریت کے طور پیش کرنے کے لئے بہتان اور جھوٹ پر مبنی داستانیں پھیلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اسی زمینی حقیقت کا بار بار اور برملا اعتراف تمام تر انتباہ کے ساتھ سابق گورنر ستیہ پال ملک بھی کرتے رہے ہیں لیکن اُن کی اس حقیقت پسندی کا کسی نے احترام نہیں کیا۔
دراصل قصوران لوگوں کا نہیں جو کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں من گھڑت داستانیں گڑھ گڑھ کر جھوٹ کے پہاڑ کھڑا کررہے ہیں بلکہ قصور ان لوگوں کا ہے جو ملک کے کچھ بڑے میڈیا گھرانوں سے وابستہ ہیں اور ان میڈیا گھرانوں کی ملازمانہ حیثیت اور قد کے باوجود وہ بحیثیت اینکر میڈیاکا استعمال کرکے کشمیرکے بارے میں جھوٹ اور مکر پھیلا رہے ہیں اور ایسا کرکے وہ کشمیرکے ہر اوسط شہری کی صحت ،سلامتی ،بقاء اور عزت کیلئے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔
کشمیرمیں جب کسی بھی کشمیری، غیر کشمیری کو نشانہ بنا کر صفحہ ہستی سے مٹایاجارہاہے کوئی درندہ ، غیر مہذب، غیر شائستہ اور جانور ہی ہوگا جو ان ہلاکتوں پر بغلیں بجارہے ۔ دیگر مذاہب کا تو معلوم نہیں لیکن اسلام میں ایسی کسی بھی ہلاکت ؍قتل کی گنجائش نہیں، بلکہ اسلام ایک بے گناہ اور معصوم انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرارد یتاہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قتل کرنے والے ہاتھ خود کو اسلام سے وابستہ کررہے ہیں،اسلام کے پیروکار کے طور خود کو پیش کررہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جہاد کا حصہ ہے حالانکہ جہاد کے تصور اور انسان کی زندگی میں اس کی ضرورت اور اہمیت کچھ اور ہے البتہ قتل وغارت لڑائی جھگڑا ،فساد اور تخریب سے نہیں۔
جو لوگ یا عنصر مذہب کی بُنیاد پر کسی ہلاکت کو دیکھنے اور پیش کرنے کے خوگر بن چکے ہیں ان سے کیا یہ پوچھا جاسکتاہے کہ اگر کشمیرمیں دہشت گردوں کے ہاتھوں کوئی مقامی یا غیر مقامی غیر مسلم نشانہ بن جاتا ہے تواُس پر سراپا احتجاج تو وہ نظرآتے ہیں اور طرح طرح کی تاویلات اور قصے کہانیوں کا اختراع کرکے پیش بھی کررہے ہیں ، میڈیا پر بحیثیت خودساختہ تجزیہ کار اور تبصرہ نگاہ بیٹھ کر کچھ بھی اناپ شناپ کہہ کر ملک کے طول وارض میں فضا کو دانستہ طور سے مکدر بنانے میں اہم کرداراداکررہے ہیں لیکن جب اسی دہشت گرد کے ہاتھوں کشمیرپولیس کا کوئی اہلکار ، کشمیر کا کوئی شہری نشانہ بن جاتا ہے تو اُس وقت ان کی زبان پر کیوں تالے چڑھ جاتے ہیں، وہ خاموش کیوں ہوجاتے ہیں ،ا سو قت ان کے منہ سے کوئی اختراعی قصہ اور کہانی کسی میڈیا ہائوس کا نریٹو کیوں نہیں بن جاتا ؟
قصور ان کا بھی ہے جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ توہیں لیکن جب کشمیرکے بارے میں بیان بازی کرتے ہیں تو وہ بیانات باہم تضادات کا بدصورت امتزاجات کا مجمع ہوتے ہیں۔مثلاً اب کوئی ہڑتال نہیں ہوتی، کوئی پتھر بازی نہیں ہوتی، کوئی سیاسی نوعیت کا احتجاج نہیں ہوتا، لوگ سیاسی نوعیت کے معاملات کو لے کرسڑکوں پر نہیں آتے لیکن بیانات میں لوگوں باالخصوص نوجوانوں سے کہاجارہاہے کہ وہ پتھر بازی ترک کریں، کیا جموں وکشمیرکی نوجوان نسل پتھر بازہے ؟ اس نوعیت کی لغو بیان بازی کرکے سیاسی پارٹیوں کے یہ شہسوار کیا ثابت کرناچاہتے ہیں یا کیا پیغام دینے کی سعی کررہے ہیں ۔ کیا ان کی یہ بیان بازی دانستہ نہیں ہے جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کشمیر کی نوجوان نسل کی شبیہ کو اس حد تک بگاڑ بگاڑ کر رکھدیا جائے کہ وہ جموںوکشمیر کی سرحدوں سے باہر قدم رکھنے کی بات تو دور کی بات ہے جھانکنے تک کی جرأت نہ کرسکیں۔ اس نوعیت کی بیان بازیوں کے خوگر سیاسی ورکروں کو ہمارا یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں مجروح اعتماد اور بھروسہ کو بحال کرنے کے وسیع تر مفادات میں اپنی سوچ اور اپروچ کو سمت عطاکرنے کی سنجیدہ کوشش کریں تاکہ کشمیر سے کنیا کماری تک کوئی خود کو غیر محفوظ تصور نہ کریں اور نہ ہی کسی میڈیا ہائوس یا کسی جنون پرست جماعت یا ادارے کو یہ موقع میسررہے کہ وہ کشمیر اور کشمیریوںکو عفریت کے طور پیش کرنے کی جرأت جٹاپائے۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ زمینی حقیقت ہے جس کو جھٹلانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی گنجائش ہے۔ سابق گورنر ستیہ پال ملک نے بھی اسی طرح کی حقیقت بیانی کی تھی لیکن کسی نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا۔ معلوم نہیں کیوں؟ البتہ کشمیر میں یہ محسوس کیاجارہاہے کہ موجودہ گورنر اپنے سابق پیش رئو کے برعکس ملک کے بہت سارے حلقوں میں اثر رکھتے ہیں ، وہ مختلف معاملات کے حوالہ سے زیادہ سرگرم ہیں، معاملات کو اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں ،ا س مخصوص پس منظرمیں یہ اُمید کی جارہی ہے کہ وہ لوگ ، ادارے اور عنصر منوج سنہا کی بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں گے اور کشمیر میں پیش آمدہ معاملات کو کسی فرقہ، کسی مذہب، کسی ذات یا کسی علاقہ پر ستی کی عینک سے دیکھنے کی اپنی ۳۰؍سالہ روش کو ترک کرنے کی کوشش کریں گے۔
وہ اس بات کو مقدم رکھ کر اور ذہن نشین رکھیں گے کہ جموںوکشمیر کسی علاقہ، کسی میدان، کسی پہاڑ کا نام نہیں بلکہ جموں وکشمیر میں وہ سبھی شامل ہیں،ا س کا ناقابل تنسیخ حصہ ہیں جو اسی سرزمین میں جنم پاکر اسی سے وابستہ ہیں، ان کی کردارکشی کرنے، انہیں غلط رنگ میں رنگنے اور مخصوص عینکیں آنکھوں پر چڑھا کرانہیں ملکی رائے عامہ کے سامنے پیش کرکے ایسے عنصر اپنی فکری عیاشی اورفکری دہشت گردی کو زبان تو دے رہے ہیں لیکن ملک کے وسیع تر مفادات جن کا تعلق جموں وکشمیر سے ہر گز الگ تھلگ نہیں کو حال اور مستقبل کے حوالوں سے ناقابل تلافی نقصانات سے ہم کنار کرنے کی دانستہ کوشش کررہے ہیں۔
یہ عنصر اپنی ان گھٹیا حرکتوں اور مجرمانہ سوچ سے اجتناب کریں،یہی ہمارا مخلصانہ مشورہ بھی ہے اور اپیل بھی !!