لگتا ہے کہ اپنے آزاد صاحب… غلام نبی آزادصاحب ابھی ماضی میں ہی جی رہے ہیں… اُس ماضی میں جب وہ کشمیر کے وزیرا علیٰ تھے ‘ جب’مسئلہ‘ کشمیر پر بات چیت کی باتیں کی جاتی تھیں‘ جب جنگجوؤں کو نہیں بلکہ جنگجوئیت کو مارنے کی صلاح دی جا رہی تھی… لوگوںکے دل جیتنے کی پالیسی پر بحث وتمحیص ہو تی تھی…اور لگتا ہے کہ آزاد صاحب اب بھی اُسی دور میں جی رہی ہیں … انہیں اس بات کا خیال نہیںہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے کہ یہ ۲۰۲۲ ہے ۲۰۰۵ /۲۰۰۶ نہیں اور … اور بالکل بھی نہیں ۔ اسی لئے تو آزاد صاحب آج بھی ‘ یعنی ۲۰۲۲ میں بھی جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے بجائے انہیں سمجھانے کی باتیں کررہے ہیں … ماضی میں ‘ ان کے دور میں جنگجوئیت کے بارے میں جو پالیسی تھی‘ اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں… یا تو آزاد صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آرہاہے یا یہ جناب کچھ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں اور… اور بالکل بھی نہیں سمجھنا چاتے ہیں… یہ نہیں سمجھنا چاہتے ہیں کہ کشمیر بدل گیا ہے… کشمیر کوبدل دیا گیاہے … کشمیر کے بارے میں ان کے زمانے میں جو سوچ تھی ‘ اس سوچ کی کب کی آخری رسومات ادا کر دی گئی ہیں اور… اور اس سوچ کے بارے میں کچھ بھی سوچنا آج کے دور میں یوں سمجھ لیجئے گناہ عظیم تصور کیا جاجاتا ہے… ہم جج نہیں ہیں اور… اور بالکل بھی نہیں ہیں ‘ اس لئے صاحب ہم یہ فیصلے نہیں دیں گے کہ کون سی سوچ صحیح تھی ‘ کونسی پالیسی غلط تھی … جنگجوؤں کو مارنے کی پالیسی صحیح ہے یا جنگجوئیت کا خاتمہ کرنا ہی عقل مندی ہے… ہم یہ نہیں جانتے ہیں اور… اور اللہ میاں کی قسم یہ بھی تو سچ ہے کہ اگر ہم کچھ جانتے بھی ہوں گے تو… تو کیا ہم اتنی ہمت جٹا پائیں گے کہ ہم اس کے بارے میں کچھ کہیں… نہیں صاحب ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ بڑے لوگوں کرنے دیجئے کیا غلط ہے اور کیا صحیح … ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں … ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر ہم سب سے …یعنی آزاد صاحب سے ‘ آج کے حکمرانوں سے‘ ان سب سے صحیح فیصلہ کرنے والا ایک ہی اور… اور اللہ میاں کی قسم اس کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہو تا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو تا ہے اور… اور وہ ہے وقت… جی ہاں وقت ۔ وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کیاآج بھی آزاد صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے یا پھر آج کے کشمیر میںجو ہو رہا ہے وہ درست ہو رہا ہے … وہی درست ہے ۔ہے نا؟