دنیا میں کہیں کچھ بھی ہو جائے … مسلمانوں کے ساتھ ہو جائے تو… تو کشمیری سڑکوں پر نکل آتے ہیں … واویلا کرتے ہیں ‘ احتجاج کرتے ہیں ‘ مظاہرے کرتے ہیں اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی … کیجئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے … اعتراض ہے تو… تو اس ایک بات پر ہے کہ کیا ہمارے لئے‘ کشمیریوں اور کشمیر کیلئے کوئی سڑکوں پر آتا ہے ‘ احتجاج ‘مظاہرے اور اظہار یکجہتی کرتا ہے ؟گزشتہ ۳۰/۳۵ برسوں میں ایسے کئی مواقع تھے جب کشمیریوں کو ضرورت تھی… ان سے یکجہتی کے اظہار کی ضرورت تھی… لیکن کوئی آگے نہیں آیا ہے… کسی نے ہمارے بارے میں بات تک نہیں کی … سب کو سانپ سونگھ گیا … کسی نے اپنے لب تک نہیں ہلائے … کوئی آواز ہمارے حق میں نہیں اٹھی ‘ کوئی ہمارے لئے سڑکوں پر نہیں آیا … ملک کے دوسرے حصوں سے کسی مسلمان نے ہم سے اظہا ر یکجہتی کے دو بول نہیں بولے… آخر ہم بھی تو ان ہی کی طرح ’مسلمان‘ تھے… ان کے بھائی تھے… پھر آج ہمیں کیوں کہا جارہا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی نظریں ہم پر لگیں ہوئی ہیں… ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہیے… کیوں صاحب کیا ہم نے ملک کے دوسرے مسلمانوں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ آپ وقف ایکٹ کی مخالفت کیجئے اور شوق سے کیجئے ‘ اس لئے کیجئے کہ اس کا کشمیر پر بھی اثر پڑے گا … یا پڑ سکتا ہے… لیکن صاحب ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ‘ ایسا نہیں کہا جارہا ہے… اس ایکٹ کی مخالفت اس لئے کی جا رہی ہے کیوں کہ ملک کے مسلمان یا مسلمانوں کا ایک حصہ اسے غلط سمجھ رہا ہے… اس ایکٹ کو مسلمانوں کے حق میں نہیں ‘ بلکہ ان کے خلاف سمجھا جا رہا ہے ۔پی ڈی پی اور پی سی ‘حکومت کی تنقید کررہی ہیں… یہ کہہ کر رہی ہیں کہ جموںکشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور مسلم اکثریتی علاقے سے ملک کے دوسرے مسلمانوں تک جو پیغام جانا چاہئے تھا وہ نہیں گیا… بالکل بھی نہیں گیا… معاف کیجئے گا لیکن صاحب یہ بکواس ہے… اس میں کوئی منطق نہیں ہے… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ ملک کے مسلمانوں نے کب ہمارے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھا جو ہم ان کے مسئلوں کے ٹھیکہ دار بننے کی کوشش کررہے ہیں… جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وقف ایکٹ کا کوئی منفی اثر ہے … اس کا کوئی منفی اثر پڑے گا تو… تو وہ ملک کے دیگر مسلمانوں کی طرح کشمیری مسلمانوں پر بھی پڑے گا … پھر بھی ہمیں اپنی فکر نہیں اور… اور ملک کے مسلمانوں کے غم میں آنسو بہا رہے ہیں… مگر مچھ کے آنسو۔واہ رے سیاست واہ! ہے نا؟