سرینگر//(ندائے مشرق ویب ڈیسک)
انڈیا اور چین کے درمیان اروناچل پردیش میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر جھڑپ جس میں کچھ فوجی زخمی ہوئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’’یہ جھڑپ جمعہ ۹ دسمبر کو ہوئی جس میں دونوں اطراف کے چند فوجی معمولی زخمی ہوئے، اور اس کے بعد دونوں ممالک کی افواج پیچھے ہٹ گئیں‘‘۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اس واقعے کے بعد فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ایل اے سی کے توانگ سیکٹر پر حد بندی کے تنازعے کی وجہ سے یہ تصادم ۲۰۰۶ سے جاری ہے۔‘
’اروناچل پردیش میں توانگ سیکٹر کے مختلف علاقوں میں دونوں اطراف حد بندی کے اپنے اپنے دعوے کے تحت گشت کرتی ہیں۔ جمعے کو چینی فوجیوں نے ایل اے سی عبور کیا اور انڈین فوج نے انہیں پوری طاقت سے روکا۔‘
حکومتی ذرائع کے مطابق، سرحد کے بارے میں’مختلف تصورات‘ کی وجہ سے اس طرح کے تصادم ۲۰۰۶ سے ہو رہے تھے۔
ذرائع نے بتایا’’اروناچل پردیش میں توانگ سیکٹر میں ایل اے سی کے ساتھ کچھ علاقوں میں مختلف تاثرات ہیں، جہاں دونوں فریق اپنے دعوے کی لائن تک علاقے میں گشت کرتے ہیں۔ ۲۰۰۶ سے یہی رجحان ہے۔ ۹ دسمبر ۲۰۲۲ کو، چینی فوجیوں نے ایل اے سی سے رابطہ کیا۔ توانگ سیکٹر میں جس کا مقابلہ اپنے ہی فوجیوں نے مضبوط اور پرعزم انداز میں کیا‘‘ ۔
لداخ کی گلوان وادی جون۲۰۲۰میں انڈیا اور چین کے درمیان جھڑپوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں افواج آمنے سامنے آ گئیں۔
گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ میں ۲۰ ؍انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی تھیں۔
جھڑپوں کے بعد انڈیا نے لداخ میں تقریباً ۵۰ ہزار فوجیوں کو چینی افواج کے مقابل منتقل کیا تھا۔
دونوں ملکوں میں افواج کو پیچھے ہٹانے کے معاہدے کے بعد چینی فوجیوں نے لداخ میں پینگونگ تسو جھیل کے کنارے سے تمام کیمپوں کو خالی کرنے کے لیے بنائے گئے درجنوں ڈھانچوں کو توڑ دیا تھا اور گاڑیوں سمیت منتقل ہو گئے تھے۔
انڈیا اور چین کے درمیان۳۸۰۰کلومیٹر طویل سرحد ہے، جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر کسی بھی آتشیں اسلحے کے استعمال سے بچنے کیلئے پہلے طویل عرصے سے قائم پروٹوکول کی پابندی کرتی تھیں۔