نئی دہلی// راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھر نے پارلیمنٹ کی خودمختاری کو جمہوریت میں مقدس قرار دیتے ہوئے آج کہا کہ اسے آئین کی کسی بھی شق میں نئی [؟][؟]چیزیں شامل کرنے ، انہیں تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے ۔ آئین کی کسی بھی شق کو مناسب عمل کو اپناتے ہوئے منسوخ کرنے اور ترمیم کرنے کا ‘غیر مشروط’ حق دستیاب ہے ۔
مسٹر دھنکھر نے نائب صدر اور ایوان بالا کے چیئرمین کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن پہلی بار راجیہ سبھا کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
مسٹر دھنکھر نے اپنے استقبال کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کی تقریروں کے بعد ایوان بالا سے اپنے پہلے ہی خطاب میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کے قیام کے لیے 99ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد کیے جانے پر سوال اٹھایا اور سات سال تک پارلیمنٹ میں بحث نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مینڈیٹ کی نمائندگی کرنے والے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان راجیہ سبھا اور لوک سبھا مل کر اس مسئلہ کا حل تلاش کریں گے ۔
پارلیمنٹ کے حق کو سب سے اہم قرار دیتے ہوئے مسٹر دھنکھر نے کہا کہ اس کے لیے اسے ایگزیکٹو کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تک کہ عدلیہ بھی اس حق میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ صرف اس معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے جہاں آئین کی تشریح کا کوئی بڑا مسئلہ ہو اور اس کے لیے آئین کے سیکشن 145(3) میں ایک شق کا التزام ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اس خودمختار حق کا استعمال کرتے ہوئے پنچایتی راج، میونسپل کارپوریشن اور کوآپریٹو سوسائٹیوں کے لیے تفصیلی انتظامات کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرکے حکمرانی کے ڈھانچے میں مکمل تبدیلیاں کی ہیں۔
مسٹر دھنکھر نے قومی عدالتی تقرری کمیشن کی تشکیل کے لیے آئین کی 99ویں ترمیم کو مسترد کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا، سات سال تک پارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان مینڈیٹ کے محافظ ہونے کے ناطے اس مسئلے کو حل کرنے کے پابند ہیں اور انہیں یقین ہے کہ پارلیمنٹ ایسا ضرور کرے گی۔
اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں غیرمعمولی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ لوک سبھا نے اسے متفقہ طور پر 13 اگست 2014 کو منظور کیا تھا جس میں کسی بھی رکن نے ووٹ سے الگ نہیں کیاتھا۔ اگلے دن 14 اگست کو ایوان نے بل کو متفقہ طور پر منظور کیا اور صرف ایک رکن نے حصہ نہیں لیا۔ پارلیمانی جمہوریت میں آئینی بل کی اتنی مضبوط حمایت شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اس آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے عمل میں اسے 29 میں سے 16 ریاستوں کی مقننہ نے منظور کیا اور صدر نے آئین کے آرٹیکل 111 کے تحت 31 دسمبر 2014 کو اس کی منظوری دی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اس تاریخی فیصلے کو سپریم کورٹ نے 16 اکتوبر 2015 کو کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ یہ بل عدالتی طور پر تیار شدہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے میل نہیں کھاتا۔
مسٹر دھنکھر نے کہا کہ جمہوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں عدلیہ نے آئینی طور پر منظور شدہ دستور کو ایک طرف رکھا ہو۔ انہوں نے اسے آئین کی خودمختاری اور مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کا کھلا ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس مینڈیٹ کے محافظ ہیں۔ مسٹر دھنکھر نے کہا کہ کسی بھی آئین کی بنیادی طور پر عوام کا حکم ہوتا ہے جس کی عکاسی پارلیمنٹ میں ہوتی ہے ۔ پارلیمنٹ آئین کی ایگزیکٹو ہے اور اسے فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے ۔
مسٹر دھنکھر نے ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ کو بھی جمہوری اقدار کے خلاف قرار دیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام اراکین جمہوری اقدار اور اصولوں پر آگے بڑھ کر ملک کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے مل کر کام کریں گے ۔