سرینگر//
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے ) نے ہفتے کی صبح وادی کشمیر کے مختلف اضلاع میں چھاپے ماری کے دوران ۲۹لاکھ روپے برآمد کرکے ضبط کئے ۔
یہ چھاپے ملی ٹنسی فنڈنگ کیس کے سلسلے میں مارے گئے ۔
ایس آئی اے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جموں کشمیر میں ملی ٹینسی کے ایکو سسٹم کو پوری طرح سے تباہ کرنے کی خاطر (ایس آئی اے ) کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے تحت ہفتے کی صبح کپواڑہ ، بارہ مولہ ، بانڈی پورہ ، سری نگر اور بڈگام میں مشتبہ افراد کے رہائشی مکانوں پر چھاپے مارے گئے ۔انہوں نے بتایا کہ سی آئی کے کشمیر نے اس حوالے سے پہلے ہی ایف آئی آر زیر نمبر۲۰۲۲/۲۰کے تحت کیس درج کیا ہے ۔
یہ مقدمہ پاکستان میں مقیم ممنوع (ملی ٹینٹ) تنظیم (البدر) کے ارکان سے متعلق ہے جو کہ کچھ شناخت شدہ افراد/ ملی ٹینٹ معاونین کے ساتھ مل کرایک منصوبہ بند طریقے سے مجرمانہ سازش کے تحت پاکستانی ایجنسیوں کی فعال حمایت اور ملی بھگت سے وادی میں کالعدم ملی ٹینٹ تنظیموں کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کی خاطر فنڈز اکھٹا کر رہے ہیں۔
ایس آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح سے جمع کی گئی رقم کو غیر منظم چینلز کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس سازش کے ایک حصے کے طور پر ملی ٹینٹ فنڈنگ ماڈیول نے وادی کشمیر کے مختلف حصوں میں بہت سارے سلیپر سیل /ملی ٹینٹ معاونین بنائے ہیں جو جموں وکشمیر میں مختلف ملی ٹینٹ تنظیموں کو بینکوں کے ذریعے رقم منتقل کرنے میں بطور سہولیت کار کام کر رہے ہیں۔
ایس آئی اے نے مزید کہاکہ یہ رقم نہ صرف ملی ٹینسی ، غیر قانونی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے بلکہ ملی ٹینٹ معاونین کو بھی یہ رقم فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ مقامی نوجوانوں کو ملی ٹینٹ صفوں میں شامل کرانے کی خاطر اُنہیں ترغیب دے اور جموں وکشمیر کو یونین آف انڈیا سے علیحدگی کے اولین مقصد کے ساتھ ملی ٹینسی ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھ سکے ۔
ترجمان کے مطابق ہفتے کے روز وادی کے مختلف اضلاع میں تلاشی کارراوئیوں کے دوران۲۹لاکھ نقدی، بینک پاس بکس، چیک بکس، ڈیجیٹل مواد ، موبائیل فونز اور دوسرا مواد برآمد کرکے ضبط کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ ضبط شدہ ڈیجیٹل مواد کی تحقیقات کے بعد مزید انکشافات متوقع ہے ۔
بتادیں کہ ایس آئی اے کی جانب سے تلاشیوں کا مقصد ملی ٹینسی کے ایکو سسٹم کو ختم کرکے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور اُنہیں مدد و اعانت فراہم کرنے والے ملی ٹینٹ معاونین کی شناخت کرکے اُنہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے ۔