نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے بدھ کو جموں و کشمیر کی ایک عدالت کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے سال۲۰۱۸میں خانہ بدوش برادری کی آٹھ سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طورپر عصمت دری کرنے اور اس کا قتل کرنے کے ملزمین کے خلاف پھرسے مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔
جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس جیبی پاردی والا کی صدارت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا’’کٹھوعہ معاملے میں اہم ملزم کو نابالغ نہیں بلکہ ایک بالغ کے طورپر پیش کیا جانا چاہئے ‘‘۔
بینچ نے کہا کہ کٹھوعہ کے چیف جیوڈیشل مجسٹریٹ نے اس معاملے میں ملزم کی نابالغ حالت کے پیش نظر فیصلہ سنایا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جموں و کشمیر حکومت نے دعوی کیا ہے کہ ہائی کورٹ نے جیوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے اہم ملزم کو نابالغ بتائے جانے کے حکم کی غلط طریقے سے تصدیق کی تھی۔بینچ نے کہا’’ملزم کی عمر سے متعلق ثبوتوں کی کمی میں عمر کا تعین کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر کی رائے پر غور کیا جانا چاہئے تھا‘‘۔
میڈیکل ثبوت پر بھروسہ کرنا یا نہ کرنا ثبوت کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے ۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کٹھوعہ مجسٹریٹ کے حکم کو منسوخ کردیا جاتا ہے اور ملزم کو جرم کے وقت نابالغ نہیں مانا جائے ۔
استغاثہ کے مطابق بکروال کی خانہ بدوش برادری کی آٹھ سالہ بچی کو کٹھوا کے رسانا علاقے سے ۱۰جنوری۲۰۱۸کو اغوا کرلیا گیا تھا اور وہ۱۷جنوری کو مردہ پائی گئی تھی۔
چارج شیٹ کے مطابق ملزم نے مندر میں متاثرہ کو اغوا کیا۔اسے نشیلی اشیا دی،اس کی عصمت دری کی اور پتھر سے مارا اور گلا گھونٹ کر اس کا قتل کردیا۔
پٹھان کوٹ کی ایک عدالت نے ۱۰جون۲۰۱۸کو اس معاملے میں تین قصورواروں سانجی رام،دیپک کھجوریا اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
رام اس جرم کا ماسٹرمائنڈ تھا اورمندر کا چوکیدار تھا جہاں بچی کے ساتھ مبینہ طورپر عصمت دری ہوئی تھی۔کھجوریا ایک پولیس افسر تھا۔خصوصی پولیس افسر سریندر ورما،ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا کو ثبوت تباہ کرنے کے لئے پانچ سال کی جیل کی سزاسنائی گئی۔
مقامی عدالت نے ساتویں ملزم وشال جنگوترا شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری دیا تھا۔