جموں وکشمیر میں الیکشن کی باتیں تو ہورہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کے اہتمام و انعقاد کے لئے جو کچھ بُنیادی سطح پر درکار ہیں کیاان کی تکمیل کے بغیر الیکشن عمل کو نتائج کے حوالہ سے حتمی تصور کیاجاسکتاہے۔ غالباً اس سوال کا جواب ہر سیاسی پارٹی اور ان سے وابستہ لیڈروں کو ہے لیکن وہ اس کا تذکرہ نہیں کررہے ہیں، صرف الیکشن کرانے کی راگنی کا راگ ہر زور الاپ کر معلوم نہیں وہ کس سمت کی طرف لوگوں اور یوٹی کو لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔
کچھ سیاستدان کچھ دنوں سے اب یہ کہتے سُنے جارہے ہیں کہ مرکزی حکومت جموںوکشمیر میں پراکسی کی وساطت سے حکمرانی کررہی ہے اور حکمرانی کیلئے بیروکریسی کو اختیارات تفویض کئے جاچکے ہیں جو جمہوری طرز عمل اور جمہوری نظام کی نفی بھی ہے اور مقامی لوگوں کی اپنی حکمرانی سے بے دخلی یا محرومی یا انہیں دور رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ لیڈران اس بیانیہ کے حوالہ سے فوری طور سے الیکشن کے انعقاد پر اصرار کررہے ہیں۔ کچھ اور لیڈران کا موقف یہ ہے کہ اس پراکسی حکمرانی کے ہوتے ہوئے نہ ترقیاتی اور تعمیراتی کام ہورہے ہیں جیسا کہ دعویٰ کیاجارہاہے اور اگر ہوتے تو زمین پران کاکہیں نہ کہیں کوئی نقش ضرور نظرآتا جبکہ ان دعوئوں کا توڑ کرتے ہوئے گورنر کی قیادت میں ایڈمنسٹریشن مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد سے جموں وکشمیرمیں ہزاروں کروڑوں روپے کی نہ صرف سرمایہ کاری ہوئی ہے بلکہ یوٹی کے لئے مخصوص بجٹ کے تحت تعمیر وترقی کی ناقابل یقین رفتار جاری ہے۔ جبکہ انہی کچھ برسوں کے دوران تقریباً۳۰؍ ہزار بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت میں لے کر برسرروزگار کردیاگیا ہے۔
دعویٰ اپنی جگہ اور جوابی دعویٰ بھی اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی سے قبل بحیثیت یوٹی کے لئے الیکشن کس حد تک نتائج خیز ثابت ہو ں گے اور یہ فرض بھی کرلیاجائے کہ الیکشن عمل کی تکمیل کے نتیجہ میں اسمبلی بھی وجود میں آجائیگی، حکومت کی تشکیل بھی ہوگی لیکن اُس حکومت اور اسمبلی کا کیا جو عوام کی ترجیحات اور ضرورتوں کی کسوٹی پر پورا اُترنے سے اس لئے قاصر ہوگی کہ تمام تر اختیارات دہلی کے حد اختیارات میں ہوں اور یوٹی کا وزیراعلیٰ اور دوسرے وزراء دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال کی محض کاپی نظرآتے رہیں گے۔
ایسی کسی ہیت کی حکومت کسی کام کی نہیں، جس حکومت کو قدم قدم پر اختیارات اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے چیلنجوں، سوالات اور رکاوٹوں کاسامنا ہو وہ عوام کی کیا خدمت کرسکتی ہے ، کیسے ان سے الیکشن کے دوران کئے وعدوں کا ایفا کرسکتی ہے، سیاسی، انتظامی، اقتصادی شعبوں کے حوالوں سے اصلاحات کرنے، خامیوں کو دور کرنے اور عوام کی ضرورتوں اور خواہشات کے مطابق منصوبے مرتب کرنے کی سمت میں ایسی حکومت اور اسمبلی کا بادی النظرمیں ذرہ بھر بھی کردار نظرنہیں آرہاہے۔
یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جس پر الیکشن پراسیس کے اہتمام و انعقاد کیلئے اپنے پر پھڑانے والے مہر بہ لب ہیں لیکن عوام سے یہ وعدہ کرتے ضرور سنے جارہے ہیں کہ سیاسی معاملات کی بحالی، بجلی کی کسی حد تک مفت ترسیل، دربارمو کی بحالی، زمین کے ملکیتی حقوق اور نوکریوں کیلئے تحفظ ،قدرتی وسائل بشمول معدنیات اور تعمیراتی میٹریل کے ٹھیکے جو بیرون یوٹی کے ٹھیکہ داروں کے حق میں الاٹ کئے جارہے ہیں کو منسوخ کرکے مقامی ٹھیکہ داروں اور فرموں کے حق میں الاٹ کرنے اور مختلف شعبوں کے تعلق سے سنز آف دی سوئل کو ترجیحات دینے جیسے وعدے اور اعلانات کو مجوزہ حکومت اور مجوزہ اسمبلی کیسے پورا کریگی۔
غالباً کشمیرنشین اور جموں نشین سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو اس بات کا احساس نہیں کہ جموں وکشمیر بدل گیا ہے، وہ سارے پرانے قوانین منسوخ ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ وہ قوانین نافذ العمل ہیں جو ملکی سطح پر نافذ العمل ہیں، ان قوانین کے ہوتے کچھ اختیارات مرکز کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں جبکہ کچھ ہی باقی رہ گئے ہیں، لیکن یوٹی کے ہوتے ہوئے ایسے قوانین کے تحت بھی اختیارات مرکز کے ہی حد اختیارات میں ہیں۔
اس تناظرمیں یہ ضروری بن جاتا ہے کہ پہلے ریاستی درجہ کی بحالی کو یقینی بنایاجائے، لیکن کوئی سیاسی پارٹی ریاستی درجہ کی بحالی اولین ترجیحات کا ایجنڈا نہیں رکھتی ہے، بلکہ برعکس اس کے ہر پارٹی اور اس سے وابستہ لیڈر شپ الیکشن کیلئے تڑپ رہی ہے، یہ عجلت غالباً اس وجہ سے ہے کہ یہ سارے لوگ تنخواہوں ، مراعات، سہولیات، مفت خوری، گاڑیوں پیٹرول، رہائشی سہولیات وغیرہ کی کمی محسوس کررہے ہیں او رچاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اقتدار کی لیلیٰ ان کے گلے کا ہار بن جائے۔ یہ لوگ اقتدار ،کرسی اور اختیارات کیلئے بے چین ہیں۔
عموماً کہاجاتا ہے کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں، یہی عوامی طاقت جمہوریت کا زیور بھی ہے، روح بھی ہے اور حسن بھی، لیکن جہاںعوام کو طاقت اور عمل آوری کاسرچشمہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس نعرے کی آڑمیں حقیقت میں تمام تر اختیارات کو مرکوز کرنے کے راستے ہموار کئے جاتے رہیں وہاں جمہوریت توپہلی کیجولٹی بن ہی جاتی ہے لیکن لوگ ردعمل میں اُس سارے نظام سے متنفر ہوکر دوری بھی اختیار کرتے ہیں اور غیر محسوس اور کبھی کبھار محسوس انداز میں عدم اشتراک کے راستے پر بھی ہولیتے ہیں۔
جموںوکشمیر میں ۵؍اگست کے بعد جس بدلائو کی بُنیاد رکھی گئی ہے اُس بدلائو کو اس کے منطقی انجام تک لے جانے کیلئے عوام کی ہر شعبے کے حوالہ سے سرگرم ، ٹھوس اور مثبت شرکت ناگزیر ہے۔ اس عوامی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ انتظامیہ ان خطوط پرخود کو گامزن کرے جو ضروری ہیں، من اختراعی ، من چاہی پسند اور ناپسند اور مصلحتوں کی ذرہ بھر بھی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اس تعلق سے حقیقی راستہ بلکہ قابل قبول، سب کے لئے قابل گوارا اور قابل عمل راستہ یہی ہے جس کی نشاندہی وزیراعظم یہ کہکر کرچکے ہیں کہ سب کا ساتھ، سب کا وشواس اور سب کا وکاس۔