سرینگر//
سپریم کورٹ نے جمعہ کو مرکز، جموں و کشمیر حکومت اور دیگر سے ایک عرضی پر جواب طلب کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پبلک سیفٹی قانون کے تحت زیر حراست ۲۰ سے زیادہ لوگوں کو یونین ٹیریٹری جیلوں سے باہر اتر پردیش اور ہریانہ کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس ادے امیش للت اور بیلا ایم ترویدی پر مشتمل بنچ نے چار نظربندوں کے رشتہ داروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ کولن گونسالویس کی عرضیوں کا نوٹس لیا کہ انہیں جموں و کشمیر کی جیلوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے اس طرح ان کے رشتہ داروں کو ان سے ملنے کیلئے مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے۔
سینئر وکیل نے کہا کہ مقامی قانون کے تحت حراست میں لیے گئے لوگوں کو یونین ٹیریٹری سے باہر نہیں منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ قانون صرف یونین ٹیریٹری پر لاگو ہوتا ہے۔
حراست میں لیے گئے افراد جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۷۸ کی دفعات کے تحت احتیاطی حراست میں ہیں۔
یہ عرضی راجہ بیگم نامی خاتون اور تین دیگر افراد نے وکیل ستیہ مترا کے ذریعے دائر کی تھی۔
سری نگر کے پارمپورہ کی رہنے والی بیگم کے بیٹے عارف احمد شیخ کو اتر پردیش کے وارانسی کی سنٹرل جیل میں منتقل کیا گیا ہے۔ اسے ۷؍ اپریل کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔