گورنر سمیت حکومت کے بعض دیگر ذمہ داروں کے حالیہ بیانات کا غور سے جائزہ لیاجائے تو یہ عندیہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جموں وکشمیر میں شدت پسندوں، شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں، اعانت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کی نیت سے غیر ضروری بیان بازی کرنے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائوں ہونے جارہاہے۔
حکومت محسوس کررہی ہے کہ عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے کے حوالہ سے جو لوگ بیان بازی کاسہارا لے رہے ہیں وہ جموں وکشمیرمیں امن واستحکام کے اصل دُشمن ہیںلہٰذا جن کا میابیوں اور امن اور استحکام کی سمت میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران جو پیش رفت کامیابیوں کی صورت میں حاصل ہوئی ہیں ان کے تحفظ اور امن واستحکام کو بنائے رکھنے کیلئے یہ کریک ڈائوں ناگزیر ہے، حکومت اور ایجنسیاں اس مخصوص منظرنامے کو ایکوسسٹم کا نام دے رہی ہے جس کو ناقابل قبول اورناقابل برداشت زمرے میں رکھاگیا ہے ۔ کیونکہ ایجنسیوں اور پولیس کا یہ ماننا ہے کہ جموںوکشمیر میں دہشت گردی اب آخری سانسیں گن رہی ہے لہٰذا اس سمت میں اب کسی کو تاہی اور لغزش کی گنجائش نہیں ہے۔
کیا اس مجوزہ کریک ڈائون کے دائرے میں قومی دھارے سے وابستہ وہ سیاستدان بھی لائے جاسکتے ہیں جو بیانات کا سہارا لے رہے ہیں اور جن بیانات کو حکومت عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کا موجب سمجھ رہی ہے۔ غالباً ایسا ممکن ہے۔ اس ضمن میں دیکھاجائے تو لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ابھی چند گھنٹے پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بغیر کسی کانام لئے یہ کہکر اشارہ کیا ہے کہ ’ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہوگی جن کے غیر ضروری بیانات میں عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی اورامن کوخراب کرنے کی صلاحیت ہے…… کیونکہ کسی کو بھی امن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘ ۔
اگر چہ گورنر نے کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کا نام نہیں لیا ہے لیکن اشارہ واضح ہے۔ محبوبہ مفتی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے حالیہ بیانات جو کشمیری پنڈت ملازم، دوغیر مقامی مزدوروں کی ہلاکت اور پھر مزدوروں کی ہلاکت میں ملوث ایک ہائی برڈ جنگجو کی چھاپہ مار کارروائی کے دوران مارے جانے کے مخصوص واقعات سے ہیں اور جس بیان بازی میں ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک نہ انصاف ملے گا ایسے معاملات پیش آتے رہیں گے‘ کی طرف ہی عندیہ ہے۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ ان خطوط پر کریک ڈائون کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوگا اور اس کے آنے والے دنوں کے حوالوں سے کس نوعیت کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے، یہ بحث طلب ہی رہے گا البتہ یہ واضح ہے کہ ایسے کسی طرح کے کریک ڈائون کی زد میں کشمیرنشین کچھ سیاستدان ضرور آسکتے ہیں کیونکہ عسکریٹ پسند اور عسکریت کے حوالہ سے ان کا ماضی قریب میں رول اور کردار کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ کوئی درپردہ حوالہ میں ملوث رہاہے ، کوئی درپردہ تربیت کیلئے نوجوانوں کو اس میدان میںدھکیلتا رہاہے ، کوئی خود بندوق اُٹھاچکاہے،یا بندوق برداروں کی قیادت کرچکاہے اور پھر بندوق کو خیر باد کہکر اپنے لئے سیاسی اقتدار کے حصول کیلئے قومی دھارے سے وابستہ ہوکر دودھ کا دھلا بنا پھر رہا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ بے حد اہم ہے کہ اس نوعیت کا رول اداکرکے ان مخصوص سیاستدانوں، جو آج کی تاریخ میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ رہ کر عوام کی حسن غمخوار ی میں مگر مچھ کے ٹسوے بہاتے نظرآرہے ہیں، نے کشمیراور کشمیری عوام کو کیا دیا؟ باہم متضاد نظریات اور مفادپرستی سے عبارت مفادات کی تکمیل کو یقینی بنانے کی سمت میں وہ کشمیر کے وسیع ترمفادات اور اس سے بڑھ کر عوام کے وسیع تر مفادات اور حقوق کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالہ سے بھی مجرمانہ کھلواڑ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگران لیڈروں نے عوام کے وسیع ترمفادات اور کشمیرمخصوص کے تعلق سے کوئی مثبت رول اداکیا ہوتا اور سیاسی قلا بازیوں کا راستہ نہ اختیار کیاہوتا تو آج سو فیصد عوام ان کی پشت پر کھڑے ہوتے لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہے۔ تاہم ان لیڈروں کی جلسیوں میں جو کچھ سو لوگ عموماً دکھائی دیتے ہیں وہ یا تو تماشہ بین ہوتے ہیں یا وقتی یا علاقائی مصلحتوں کے پیش نظر اور بہ سبب ’نظریہ ضرورت‘ کے شرکت کرتے ہیں۔
یہ وہ سیاسی لیڈر شپ ہے جس نے ایک مخصوص سیاسی نظریہ اور مخصوص سوچ کی حامل لیڈر شپ کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا، صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان میں سے کچھ نے تو اس لیڈر شپ کی الیکشن میںاپنے لئے کامیابیوں کیلئے حمایت بھی حاصل کی اور ان سے وابستہ کیڈر کے ووٹ بھی صندوقوں میں ڈلوانے کو یقینی بنایا۔لہٰذا اس مخصوص تناظرمیں ان کی بیان بازی کسی حیرانی کا موجب نہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ۵؍ اگست کے تناظرمیں جب ان میں سے کچھ کے خلاف کارروائی کی گئی، انہیں نظربند رکھاگیا، کسی سیاسی وغیر سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی گئی تو کچھ حلقوں نے اس کو مکافات عمل قراردیا۔ کچھ نے یہ سوال بھی کیا کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیاگیا اس پر کسی شہری کی آنکھ بھی نم نہ ہوسکی، اور اس آنکھ کے نم نہ ہونے کی وجوہات کا اعتراف یہ لوگ نظربندی اور جیلوں سے باہرآنے کے بعد خود واضح طور سے کر چکے ہیں۔ یہ سلوک ان کیلئے درس عبرت تھا لیکن انہوںنے ایسا کچھ نہیں سمجھا بلکہ عوام کاسہارا بننے کی بجائے وہ اپنے پرانے راستے پر ہی گامزن رہے البتہ فرق یہ ہے کہ کچھ ایک نے راستے اور اپروچ کے طریقے تبدیل کئے۔
حقیقت کیا ہے اور نچوڑ کیا ہے؟ وہ یہی کہ یہ لوگ اقتدار کے بھوکے ہیں، ہوس اقتدارنے انہیں اندھا، بہرہ اور گونگا بناکے رکھدیا ہے ، وہ عوام کی خواہشات ، آرزئوں ،تمنائوں اور بدلتے حالات میں لوگوں کی ضرورتوں کو ثانوی درجہ بھی نہیں دیتے ، بس اسمبلی انتخابات کے انعقاد، ریاستی درجہ کی بحالی، اور ملتے جلتے چند ایک مطالبات اور نعرے ان کی سیاست اور سیاسی چاہت کا مطمع نظر،مطمع زندگی اور مطمع حیات تک سمٹ کے رہ چکے ہیں۔