منشیات کی کھپت اور استعمال دہشت گردی سے کہیں زیادہ خطرناک، ہلاکت خیز اور ناقابل تلافی نقصان دہ ہے۔ سماجی شخصیات، دانشوروں، اہل نظروں کا بھی ماننا ہے کہ یہ ایک ایسی شئے ہے جس کو نہ صرف ہر سماج اور ان سے وابستہ طبقے حرام اور نقصان دہ سمجھتے ہیں بلکہ اس لت میں مبتلا افراد نہ صرف اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں بلکہ حیوانیت کا راستہ بھی اختیار کرکے درندہ بن جاتے ہیں۔
دُنیا کا کوئی بھی مذہب منشیات کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا البتہ بعض معاشرے ایسے ضرور ہیں جن کی کوئی اپنی اخلاقی اقدار نہیں، شائستگی نہیں، نظریاتی بُنیاد نہیں اور جو صرف موج کرو اور موج منائو کے فلسفے میں یقین رکھتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ عالمی سطح پر منشیات کی پیداوار، کھپت اور استعمال کو ممنوع سمجھا بھی جارہا ہے اور ممنوع قرار بھی دیاجارہاہے لیکن صورتحال سے نمٹنے کیلئے قوانین بھی موجود ہیں اور ہر سال لاتعداد افراد کو اس دہندہ سے وابستگی کی بُنیاد پر سلاخوں کے پیچھے بھی ڈالا جارہاہے جبکہ منشیات کی بھاری مقدار بھی برآمد کرکے ضبط کی جارہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجوش دُنیا کے کئی ممالک اور خطے ایسے ہیں جہاں یہ کاروبار منظم ہے اور اس قاتل دھندہ سے وابستہ سمگلر اور مافیازاپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کامیاب ہیں۔
حالیہ کچھ برسوں تک جموں وکشمیر اس لعنت سے پاک تھا، البتہ چھوٹے پیمانے پر چرس، فکی وغیرہ گاہے گاہے خبرونظر میں آتے رہے ہیں لیکن کشمیرمیں عسکری دورکے آغاز کے ساتھ ہی منشیات کے استعمال اس کی سمگلنگ اور بازاروں میں فروخت کاسلسلہ شروع ہوا جو اب گذرے ۳۵؍ برسوں کے دوران بڑے مگر منظم کاروبار میں جگہ پانے میںکامیاب رہا۔ منشیات کے خلاف اقدامات اور کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ لعنت میں مبتلا افراد کو اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کیلئے بحالی مراکز بھی موجود ہیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق منشیات کی یہ لعنت ہر گذرتے دن کے ساتھ فروغ پاتی جارہی ہے۔
اس دھندہ میں صرف عام یا اوسط شہری ہی ملوث نہیں بلکہ خاکی وردی میں ملبوس کچھ اہلکار، کچھ ٹھیکہ دار، کچھ سیاست سے وابستگی رکھنے والے،کچھ ٹرانسپورٹر اور دوسرے بھی وابستہ ہیں جن کا کوئی عقیدہ نہیں اور نہ ہی وہ کوئی قومی حمیت اور غیرت رکھتے ہیں۔ ان کیلئے بغیر محنت کی دولت کا حصول ہی متاع زندگی اور آخرت کی منزل قرار پائی ہے۔ ان کیلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ کشمیر کی نوجوان پود اس لعنت میں مبتلا ہورہی ہے اور مبتلا ہوکر وہ اپنے حال اور مستقبل کو برباد کررہے ہیں، منشیات کے استعمال سے آنے والی نسلیں ذہانت ، توانائی ، صلاحیت وغیرہ کے حوالہ سے کس قدر لاغر اور ذہنی اعتبار سے مفلوج ہوں گی اس حوالہ سے بھی ان کی کوئی فکر نہیں، یہ آج کو دیکھ رہے ہیں کل ان کے لئے کسی اہمیت کاحامل نہیں۔
کشمیر کے لئے یہ منظرنامہ بحیثیت مجموعی سم قاتل ہی نہیں بلکہ اُس سے بھی آگے بہت کچھ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اگر سماجی سطح پر اس لعنت کے خلاف مکمل اور منظم بیداری پیدا نہیں ہوئی اور نقصانات کا احساس اُجاگر نہیں ہوا تو خدانخواستہ ایک دور ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب کشمیر کا ہر میدان، ہرگلی، ہرکوچہ اور ہر سڑک، محلہ اور بستی منشیات کے عادی افراد اسی طرح بے ہوش وحواس پڑے نظرآتے رہیں گے جس طرح کتے کے جھنڈ، جانور اور دوسرے حیوانات سڑکوں اور گلی کوچوں میںپڑے اور رینگتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہی وقت ہے کہ لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر منظم ہوکر اُٹھ کھڑے ہو جائیں اور منشیات کی لعنت سے وابستہ افراد، گروپوں، مافیاز اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کا قلع قمع کرنے کیلئے انہیں سروں سے نہیں بلکہ پیروں سے پکڑ کر ان کو اکھاڑ پھینکنے کی تحریک کا حصہ بن جائیں۔
حالیہ برسوں میں پولیس نے بڑے بڑے گروہوں کو بے نقاب کرنے میں جوکامیابی حاصل کرلی ہے عوامی سطح پر اس کی سراہنا کی جارہی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘کشمیر میں منشیات کی سمگلنگ اور اس کا استعمال رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ اس دھندے میں اب خواتین بھی ملوث ہو گئی ہیں اور حالیہ کچھ مہینوں میں متعدد خواتین کو گرفتار کرکے ان کی تحویل سے منشیات بر آمد کی گئی ۔یہ اس افسوس ناک امر کا ایک تشویش ناک پہلو ہے جسے کشمیر کے سماج میں کوئی قبولیت نہیں ہو نی چاہئے ۔
اب تک بہت سارے افراد پر ہاتھ صاف کرتولیاگیا ہے لیکن ان کی حیثیت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی سی ہے۔ منشیات کی سمگلنگ ، خرید وفروخت اور استعمال سے وابستہ اصل سرغنے اور گروپ ہاتھ نہیں آرہے ہیں ، جن کی کھوج موجود ہ حالات میں اب ناگزیر بن چکی ہے۔ کیونکہ منشیات کا بڑھتا استعمال اب عفریت کا ساروپ دھارن کرتاجارہاہے۔
ٍ پولیس کا کہنا ہے کہ منشیات کے خلاف اسی طرح لڑاجائے گا جس طرح سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ جنگ کے اعلانات بجا اور اپنی جگہ لیکن اعلانات سے کسی معرکے کو سر نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی تاریخ کے حوالہ سے ایسی کوئی شہادت دستیاب ہے جو اعلانات کے بل بوتے پر سر کی گئی ہو۔ نتائج حاصل کرنے کیلئے عملی جدوجہد اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا بھی کافی نہیں کہ منشیات سرحد پار سے سمگل کی جارہی ہے۔لیکن اس بات کو کسی حد تک نظرانداز کیاجارہاہے کہ سمگلنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ایک منظم Trailکی خدمات اور ترسیل درکار ہے۔ جب تک نہ اُس لائن کو ختم کرکے اس کا قلع قمع کیاجاتاہے اُس وقت تک کشمیراور نہ ہی جموں منشیات کی اس لعنت سے نجات پاسکے گا۔ یہ لائن جموںوکشمیر کے حوالہ سے سرحدوں یا مادھو پور تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پنجاب اور گجرات کے ہوتے ہوئے اور بھی بہت دور تک چلی جاتی ہے۔ سمندری راستے بھی استعمال ہورہے ہیں، زمینی اور فضائی راستوں کو بھی استعمال کیاجارہاہے۔
بہرحال کچھ سنجیدہ فکر اور حساس حلقے یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ منشیات کی سمگلنگ ، کھپت اور استعمال کے پیچھے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اندھی سیاسی حکمت عملیاں اور سیاسی مصلحتیں بھی کارفرما ہوں جنہیں مجموعی تناظرمیں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا ہے۔