نئی دہلی//
مرکزی حکومت نے منگل کو جسٹس پنکج متھل کو راجستھان ہائی کورٹ، جسٹس پی بی ورلے کو کرناٹک ہائی کورٹ اور جسٹس علی محمد ماگرے کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنے کا اعلان کیا۔
چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق نوٹیفکیشن آج مرکزی وزارت قانون و انصاف کے محکمہ قانون نے جاری کیا۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق صدرجمہوریہ نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پنکج متھل کو راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تبدیل کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔
اسی طرح جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی محمد ماگرے کو ترقی دے کر وہاں چیف جسٹس بنانے کی منظوری دی گئی ہے ۔
بمبئی ہائی کورٹ کے جج جسٹس پی بی۔ ورلے کو ترقی دیکر کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کی منظوری دی گئی ہے ۔
چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی سربراہی میں سپریم کورٹ کالجیم نے ستمبر کے آخری ہفتے میں تینوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی تقرری کی سفارش کی تھی۔
اس دوان ہندوستان کے چیف جسٹس ادے امیش للت نے مرکزی حکومت کو خط لکھ کر سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس دھننجیا وائی چندرچوڑ کے نام کی سفارش کی ہے، جو ہندوستان کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔
چیف جسٹس للت نے آج صبح سو ادس بجے جسٹس چندر چوڑ کو جانشین نامزد کرنے والا خط حوالے کیا۔ سی جے آئی للت نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں سے اگلے سی جے آئی کا اعلان کرنے کے لیے ججز لاؤنج میں جمع ہونے کی درخواست کی تھی۔
چیف جسٹس للت ۸ نومبر سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں، مرکزی وزیر قانون و انصاف کرن رجیجو نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر جانشین کا نام دینے کی درخواست کی تھی۔
اگر مرکز چیف جسٹس للت کی تجویز کو قبول کر لیتا ہے، تو جسٹس چندرچوڑ کی۵۰ویں چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر۱۰ نومبر ۲۰۲۴ تک دو سال سے زیادہ کی مدت ہوگی۔ جو کہ ماضی قریب میں چیف جسٹس کے لیے سب سے طویل مدت میں سے ایک ہے۔
جسٹس چندرچوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندرچوڑ ۲فروری ۱۹۷۸ سے ۱۱جولائی۱۹۸۵ تک خدمات انجام دینے والے ہندوستان کے ۱۶ویں چیف جسٹس تھے۔
جسٹس چندرچوڑ اپنے آزاد خیال اور ترقی پسند فیصلوں کے لیے جانے جاتے ہیں، سب سے حالیہ فیصلہ غیر شادی شدہ خواتین کے ۲۴ ہفتوں تک حمل کے اسقاط حمل کے حق کو برقرار رکھنے والا فیصلہ ہے۔
وہ آئینی بنچوں کے حصہ تھے جس نے متفقہ طور پر ہم جنس پرستی کو جرم نہیں قرار دیا اور پرائیویسی کو آرٹیکل ۲۱ کے تحت بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ وہ اس اکثریت کا حصہ تھے جس نے سبری مالا مندر میں ہر عمر کی خواتین کے داخلے کے حق کو برقرار رکھا۔ جسٹس چندر چوڑ۵ ججوں کی بنچ کے رکن بھی تھے جس نے ایودھیا،بابری مسجد کیس کا فیصلہ کیا تھا۔