سرینگر// (ویب ڈیسک)
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے ایک رہنما نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں۱۷ویں صدی کے مقبرے تاج محل کی ‘حقیقی تاریخ کا مطالعہ‘کرنے کیلئے’فیکٹ فائنڈنگ‘کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شمالی بھارت کے شہر ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا تعلقات کے سربراہ رجنیش سنگھ نے کہا کہ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا تھا، لیکن اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی’سائنسی ثبوت‘ نہیں ہے۔
سنگھ نے تاج محل کی ’حقیقی تاریخ‘ کیلئے سپریم کورٹ میں دائراپنی درخواست میں کہا ہے کہ بھارت کی’ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘سے معلومات کا حق رکھتے ہوئے جب سوال کیا گیا تو ، انہوں نے بتایا کہ اس بات کی تصدیق کے لیے کوئی ابتدائی معلومات نہیں ہیں کہ شاہ جہاں نے تاج محل کی تعمیر کی تھی۔
سنگھ نے اپنی درخواست میں کہا کہ اسی طرح کا سوال’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ‘سے بھی کیا گیا لیکن وہ بھی تاج محل کی بنیاد کے بارے میں ،اطمینان بخش جواب فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
بی جے پی لیڈر نے اپنی درخواست میں لکھا کہ عدالت کو تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین پر مشتمل حقائق معلوم کرنے والی ایک کمیٹی بنانی چاہیے، جو تاج محل کی اصل تاریخ کا مطالعہ کرے، اس کی وضاحت کرے اور یادگار کے بارے میں پھیلے تنازع کو ختم کرے۔
سنگھ نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست اس کے بعد داخل کی جب بارہ مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس کی ایک درخواست کو مسترد کردیا گیا جس میں اس نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ کو ہدایت دے کہ وہ تاج محل کے کچھ سیل بند کمروں کو کھول کر دیکھیں کہ آیا وہاں کوئی ہندو مورتی تو موجود نہیں ہے۔
دائیں بازو کے ہندو گروپ بھی اس کے بعد سے اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ، تاج محل ایک ہندو مندر ہے۔ ۱۹۸۹ میں ایک ہندوستانی مصنف پی این۔ اوک نے ’تاج محل: سچی کہانی‘نام کی کتاب شائع کی۔ اپنی کتاب میں اوک نے لکھا تھا کہ اسے ۱۲ویں صدی میں ایک ہندو مندر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اسے تیجو مہالیہ یا بھگوان شیو کا محل کہا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ جہاں نے۱۷ویں صدی میں تیجو محالیہ کو تاج محل میں تبدیل کر دیا ، بالکل اسی طرح جس طرح مغل حکمران ، ہندو مندروں کو تباہ کر تے رہے اور ان میں سے اکثر کو مساجد اور اسلامی تعمیر میں تبدیل کر دیا۔
گروپ مطالبہ کر تا ہے کہ تاج محل کو ہندوؤں کو منتقل کیا جائے تاکہ وہ اسے ’واپس‘ ہندو دیوتا شیو کے مندر میں تبدیل کرکے وہاں پوجا شروع کریں۔
۲۰۱۷ میں بھی وکلاء کے ایک گروپ نے آگرہ کی ایک عدالت میں مغل دور کے مقبرے کو جو ،یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے ، ہندو مندر قرار دینے کے لیے عدالت سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔
ہفتوں بعد عدالت میں ایک بیان میں آثار قدیمہ کے محکمے نے کہا کہ تاج محل درحقیقت ایک مسلم مقبرہ تھا جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی مرحومہ بیوی ممتاز محل کی یاد گار کے طور پر بنایا تھا۔
بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قرون وسطی کی تاریخ کے پروفیسر سید علی ندیم رضوی کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کی تصدیق کہ شاہ جہاں نے اس کی تعمیر کی تھی ، فارسی زبان کی سرکاری تواریخ اور اس دور کے دیگر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ ۱۷ویں صدی کے کچھ یورپی مسافروں جیسے جین بپٹسٹ ٹورنیئر، نکولاؤ منوچی اور فرانسواں برنیئر کے تحریر کردہ تاریخی واقعات اور سفرناموں سے ہوتی ہے۔
سید رضوی کا کہنا تھا ’’سفید سنگ مرمر سے بنا تاج محل ایک عام ایرانی پلان کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ کسی بھی دور میں سفید سنگ مرمر سے بنا کوئی مندر نہیں دکھا سکتے، جس کے اوپر گنبد لگا ہوا ہو اور ہندوستان میں اس طرح کے منصوبے کے تحت بنایا گیا ہو۔ اگر کچھ لوگ تاج محل کو مندر یا ہندو عمارت کہتے ہیں تو یہ مضحکہ خیز ہیاور یہ دعویٰ افسانوی ہے‘‘۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانندنے وائس آف امریکہ کو بتایا’’بیرونی دنیا کے لوگوں کی نظر میں تاج محل ہندوستان کی پہچان ہے‘‘۔اپوروانند نے کہا ’’ایک مسلمان کی طرف سے بنائی گئی یہ بھارت کی شناخت ایک ایسی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے جو ہندوتوا کی سیاست کے پیروکاروں کے لیے نفرت انگیزہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسے اصل میں ہندوؤں نے بنایا تھا۔‘‘