خدشات کے عین مطابق افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک سال کے دوران کشمیرمیںغیر ملکی دہشت گردوں کی آمد اور تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔ سی آر پی کے سبکدوش ہورہے اعلیٰ کمانڈر کادعویٰ ہے کہ یہ ایک نیا چیلنج ہے لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے تمام فورسز ایجنسیاں باہم مربوط ہیں اور موثر طور سے صورتحال سے نمٹا جارہاہے۔
حالیہ ایام تک ذمہ دار اداروں کی جانب سے یہی دعویٰ سامنے آتارہا کہ دراندازی کے واقعات میں کمی آتی جارہی ہے اور داندازی کا جو کوئی بھی معاملہ سامنے آتا ہے اس کو موقع پر ہی نمٹا جارہاہے۔ لیکن اب اچانک یہ نیا دعویٰ سامنے آرہاہے ۔ تاہم اس نئے دعویٰ پر یقین نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ دراندازی کے یہ واقعات جموںوکشمیر میںکنٹرو ل لائن اور بین الاقوامی سرحد کے کس یا کن علاقوں سے ہورہی ہے۔ فورسز کی ایک بڑی تعداد جدید ترین اسلحہ جات سے لیس ہونے کے باوجود دراندازی کے معاملات بجائے خود ایک بہت بڑی تشویش اور بے چینی کا موجب ہیں۔
دراندازی کے بڑھتے معاملات کے ساتھ ساتھ اب کچھ عرصہ سے یہ اعلانات بھی سامنے آرہے ہیں کہ کشمیر اور جموں کے کچھ علاقوں میں وہ ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد بھی دیکھا اور پکڑا بھی گیا جسے امریکی قیادت میں نیٹو فوجی افغانستان سے انخلاء کرتے وقت افغانستان ہی میں چھوڑ چکے تھے۔ اس حوالہ سے خاص طور سے سٹک بموں کا مسلسل حوالہ دیاجارہاہے۔ ادھمپور میں گذشتہ روز ہوئے دو بم دھماکوں کو بھی ماہرین سٹک بموں کے دھماکوں سے وابستہ کررہے ہیں۔
یہ صورتحال واقعی ایک نیا مگر بہت بڑا چیلنج ہے ، جس چیلنج سے نمٹنے کیلئے فورسز کی سبھی ایجنسیوں کے درمیان قریبی اشتراک عمل ، اطلاعات کا تبادلہ اور مشترکہ کاررائیوں کی عمل آوری ایک ناگزیر ضرورت بن رہی ہے۔ لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے دراندازی کے سبھی راستے سیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شک کئی سو کلومیٹر لمبی جنگ بندی لائن یا کنٹرول لائن کو سو فید تک سیل کیاجاسکتاہے اور نہ ہی سوفیصد نگرانی ممکن ہے لیکن مشکل بھی نہیں، جہاں سیاچن ایسے خطے پر فورسز کی کامیاب نگرانی اب کئی برسوں سے جاری ہے وہیں کچھ پہاڑی اور جنگلی دروں اور غیر آباد سرحدی علاقوں کی نگرانی بھی ناممکن نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں وکشمیرمیں مختلف ایجنسیوں سے وابستہ فورسز اہلکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے، اس میں کچھ کوسرحدوں پر تعینات کئے جانے کو پالیسی، ضرورت اور حکمت عملی کے ایک حصے کے طور ممکن بنانے کی ضرورت ہے وہیں جن علاقوں سے دراندازی کے امکانات ہیں ان سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگوں کا وسیع جال بچھایا جاسکتاہے۔
حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا افغان طالبان پر بھروسہ کیاجاسکتا ہے، اس کا صحیح جواب ممکن نہیں ہے۔ بہرحال افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد حکومتی سطح پر افغان طالبان کے ساتھ رابطہ کیاگیاہے، کچھ معاملات پرآپسی بات چیت بھی کی جاتی رہی ہے، طالبان کی قیادت میں حکومتی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان کچھ معاملوں میںکاروباری اورتجارتی تعلقات بھی بحال ہوچکے ہیں، خاص کر افغانستان سے پھلوں پر محصولات کی وصولی کے تعلق سے چھوٹ دی جارہی ہے، ہندوستان افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے مختلف تعمیراتی اور ترقیاتی پروجیکٹوں کی تکمیل کیلئے مالی اور تکنیکی امداد کے ساتھ ساتھ افغانستان طالب علموں کیلئے سکالر شپ اور تعلیمی اداروں میں بغیر کسی رکاوٹ کے داخلہ ایسے خصوصی اقدامات کے تناظرمیںافغان طالبان کی دراندازی کرکے کشمیرمیںداخلہ کیا طالبان قیادت اور طالبان کمانڈروں کے دوغلے پن کاواضح ثبوت نہیں ہے۔
اس مخصوص تناظرمیں یہ کہنا بھی بے جانہیں ہوگا کہ پاکستان ، جس نے افغانیوں کیلئے اپنا بہت کچھ اب تک دائو پر لگایا، پچاس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزینوں کا بوجھ سہا، افغانیوں کو پاکستان کے مختلف حصوں میں بغیر کسی قدغن یا قانونی لوازمات کی تکمیل کے کاروبار اورد یگر مصروفیات کی کھلی چھوٹ دی ، لیکن اس امداد اور راحت رسانی کے باوجود افغان طالبان پاکستان طالبان کی پشت پناہی کرکے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کررہے ہیں صرف اسی پر اکتفا نہیں اب افغان طالبان کی قیادت کھلے طور سے پاکستان کی حکومت کو چیلنج کرکے دھمکیوں پر اُتر آئی ہے۔
طالبان کے یہ دو چہرے ہیں جو قابل اعتماد ہیں اور نہ قابل بھروسہ،افغانستان سے تعلقات دوستانہ اور خوشگوار رہیں یہ خطے کے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کی سمت میں ناگزیر ہیں اور اپنی جگہ بے حد اہمیت کے حامل بھی ، لیکن دو چہروں کے ساتھ نہیں، طالبان قیادت پر یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ نہ صرف اپنے کیڈر بلکہ افغانستان میں جو بھی غیر ملکی دہشت گرد پناہ گزین ہیں یا سرگرم ہیں انہیں کنٹرول میں رکھا جائے نہ کہ افغانستان کی سرزمین کو ہمسایہ ملکوں باالخصوص ہندوستان کے حوالہ سے لانچنگ پیڈ کے استعمال کیاجائے۔
تاریخ کے تناظرمیں بھی دیکھا جائے تو کشمیرا فغانیوں کے ہاتھوں ماضی میں بہت ظلم ، جبر اور درندگی سہ چکا ہے ، تاریخ میںافغان حکمران یا سپہ سالار کاکرخان کی حیوانیت اور کشمیریوں پرظلم وستم کے واقعات پوشید ہ نہیں ۔کشمیر اب مزید دہشت گردی ، دراندازی یا اور کوئی چہرہ دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔کشمیر زائد از تین دہائیوں سے اس لہو رنگ منظرنامہ سے گذررہاہے۔ اور نہ کشمیری عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ سرزمین کشمیر دوسرا افغانستان، لبنان، شام، یمن ، سوڈان ،عراق وغیرہ میںتبدیل ہوجائے، بلکہ پرامن زندگی بسرکرنے کے آروزمند ہیں جو موجودہ اور آنے والی نسل کیلئے باعث راحت سکون،چین ، فارغ البالی اور ترقی کا بھی ضامن ہو اور خوشحالی کے راستے بھی ہموار ہوتے رہیں۔