نئی دہلی/
سپریم کورٹ نے جمعرات کو میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی) ایکٹ کی تشریح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غیر شادی شدہ، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین قانونی طور پر شادی شدہ خواتین کی طرح۲۴ہفتے تک کے جنین کے اسقاط حمل کرنے کی حقدار ہیں۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ شوہر کی طرف سے جنسی ہراسانی، عصمت دری کی شکل اختیار کر سکتی ہے ، اس لیے اس میں اسقاط حمل کے مقاصد کیلئے قانون اور قواعد کے تحت ازدواجی عصمت دری کے معنی کو شامل کرنا چاہیے ۔
بنچ نے واضح طور پر کہا کہ غیر شادی شدہ سمیت تمام خواتین محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کی حقدار ہیں۔
سپریم کورٹ نے۲۵سالہ غیر شادی شدہ خاتون کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنایا۔
عرضی گزار نے دہلی ہائی کورٹ کے۱۶جولائی کے حکم کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا، جس نے اس (عورت کے ) کے۲۴ہفتے کے جنین کے اسقاط حمل کرنے کی اس کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں ایم ٹی پی ایکٹ کی تشریح کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اس ایکٹ کے مقاصد کیلئے ، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کے درمیان فرق مصنوعی ہے ۔ اسے آئینی طور پر برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ اس دقیانوسی تصور کو برقرار رکھتا ہے کہ صرف شادی شدہ خواتین ہی جنسی فعل میں ملوث ہوتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی غور کیا کہ۲۰۲۱میں میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ میں کی گئی ترمیم میں غیر شادی شدہ خاتون کو بھی شامل کرنے کیلئے شوہر کے بجائے ’پارٹنر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
بنچ نے کہا کہ پارلیمانی ارادہ کی منشا ازدواجی تعلقات سے پیدا ہونے والے حالات کے فوائد کو محدود کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون کو بھی۲۴۔۲۰ہفتوں میں حمل ختم کرنے کی اجازت دینا ہے ۔