سرینگر//
وادی کشمیر میں دھان فصل کی کٹائی کا سیزن جوبن پر ہے اور کسان اپنے اپنے کھیت کھلیانوں میں مصروف دیکھے جا رہے ہیں۔
وسطی ضلع بڈگام کے کسانوں کے چہرے پر مسرت و شادمانی نمایاں ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ امسال دھان کی فصل کافی اچھی ہے ۔
پارس آباد سے تعلق رکھنے والے علی محمد نامی ایک کسان نے یو این آئی کو بتایا کہ امسال دھان کی فصل کافی اچھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ امسال بارشیں بھی ہوئیں اور دھوپ بھی رہی جس کی وجہ سے فصل اچھی ہوئی اور پانی کی قلت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔
غلام احمد نامی ایک کسان نے کہا کہ امسال دھان کی فصل توقع سے بھی بہتر ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے امسال اپنی ہی کھیت سے سال بھر کے لئے چاول حاصل ہوگا اور دکان یا راشن گھاٹ سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
احمد کا کہنا تھا کہ چند برس قبل میں اپنے کھیت کا چاول فروخت بھی کرتا تھا اور سال بھر اپنے لئے بھی استعمال کرتا تھا لیکن اب چونکہ کئی کنال اراضی پر سیب کے باغ لگائے ہیں جس کی وجہ سے اگر فصل اچھی نہ ہوگی تو چاول خریدنا پڑتا ہے ۔
محمد حسین نامی ایک زمیندار نے کہا کہ اب زرعی اراضی تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ باہر کے چاول پر زیادہ سے زیادہ منحصر ہو رہے ہیں۔
حسین نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ہمارے گاؤں میں چاول کی پیداوار اتنی ہوتی تھی کہ ہمارے ہمسایہ ایک دو گاؤں ہم سے ہی چاول خریدتے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ہمیں خود راشن گھاٹ سے چاول خریدنا پڑتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ زرعی اراضی پر سیب کے باغ لگا رہے ہیں اور دھان کی فصل اگانے کیلئے انتہائی کم اراضی رکھتے ہیں۔
تاہم شمالی کشمیر کے قصبہ پٹن کے ترکولہ بل علاقے سے تعلق رکھنے والے نثار احمد کا کہنا ہے کہ ہمیں امسال دھان فصل میں کم سے کم پچیس فیصد نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود بھی فصل تسلی بخش ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم زیادہ تر خود ہی فصل کٹائی کرتے ہیں تاہم کچھ لوگ غیر مقامی مزدورں سے یہ کام لیتے ہیں۔
نثارنے کہا کہ ہمارا گاؤں بہتر چاول کی پیداوار کیلئے مشہور ہے اور کشمیر میں دھان کٹائی کا کام سب سے پہلے ہمارے گاؤں میں ہی شروع ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کی روزی روٹی کا انحصار اسی پر منحصر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ تجارت پیشہ بھی ہیں اور کچھ سرکاری نوکری بھی کرتے ہیں تاہم اکثریت زمینداری سے ہی وابستہ ہے ۔
تاہم نثار احمد کا الزام تھا کہ حکومت ان کے گاؤں کی تعمیر و ترقی کے لئے توجہ نہیں دے رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گاؤں کی سڑکوں کی حالت انتہائی خستہ ہے جن کی مرمت کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں کو دوسرے گاؤں کے ساتھ جوڑنے والا پل گذشتہ چودہ برسوں سے زیر تعمیر ہے جس کے باعث لوگوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
دریں اثنا ڈائریکٹر شعبہ زراعت کشمیر چودھری محمد اقبال نے یو این آئی کے ساتھ اپنی مختصر گفتگو کے دوران کہا کہ گذشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران امسال سب سے بہتر دھان کی پیداوار ہے ۔
اقبال نے کہا کہ ہماری دھان کی پیدا وار۷۴کوئنٹل فی ایکٹر ہوتی تھی جو امسال ۸۰کوئنٹل فی ایکٹر ہونے کی توقع ہے ۔
ناظم زراعت کا کہنا تھا کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں۱۳۰ملی میٹر بارش ہوتی تھی لیکن امسال ان دو ماہ کے دوران۲۳۰ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی جو بہتر فصل کا موجب بن گئی۔
اقبال نے کہا کہ پہلے جب دھان کی پنیری لگانے کا کام شروع ہوا تھا تو ہمیں کپوارہ، اننت ناگ اور گاندربل کے کچھ علاقوں میں خشک سالی پڑنے کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ ان حالات کے پیش نظر ہم نے متبادل فصل اگانے کا پلان بھی بنایا تھا لیکن بعد میں اللہ کی مہر بانی سے سب ٹھیک ہوا۔