اننت ناگ//
کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد نے جمعرات کو کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی تکالیف کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ انہوں نے ان نوجوانوں سے اپیل کی جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے انہیں دی جانے والی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ڈاک بنگلے میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آزاد نے کہا کہ سرحد کے اس پار کچھ لوگ ایسے ہیں جو تقسیم کے بعد اپنے ملک کو ٹھیک نہیں کر سکے بلکہ ہمارے ملک اور جموں کشمیر کو تباہ کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔
آزاد نے کہا’’ہمارے تقریباً ایک لاکھ بچے مارے گئے ہیں۔ کچھ دہشت گردوں نے مارے، کچھ مقابلے میں۔ پچاس ہزار سے زیادہ بہنیں اور بیٹیاں بیوہ ہو گئیں، تین سے چار لاکھ بچے یتیم ہو گئے‘‘۔
سابق مرکزی وزیر‘ جنہوں نے حال ہی میں کانگریس کے ساتھ اپنی پانچ دہائیوں کی رفاقت کو ختم کیا، نے ان نوجوانوں سے اپیل کی جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دیں۔
آزاد نے کہا ’’بندوق اٹھانا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ صرف آپ کی زندگی، آپ کے خاندان اور ملک کیلئے تباہی لاتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے انگریزوں کو شکست دینے کیلئے بندوق یا تلوار نہیں اٹھائی اور نہ ہی کوئی میزائل فائر کیا۔ افغانستان سے عراق تک فلسطین تک جس بھی مسلمان ملک نے بندوق اٹھائی، عسکریت پسندی کا سہارا لیا، تباہ کر دیا گیا‘‘۔
ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کی شاخ ‘ مزاحمتی محاذ (ٹی آر ایف) کی طرف سے جاری کردہ اپنی جان کو خطرے کی خبروں کا جواب دیتے ہوئے آزاد نے کہا کہ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر جانے سے قبل قومی سلامتی کے مشیر‘ اجیت ڈوول سے ان کی ملاقات کی خبریں غلط ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا’’میں نے ان رپورٹس کے بارے میں سنا ہے کہ دہشت گردوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں آنے سے پہلے (مرکزی وزیر داخلہ) امت شاہ اور ڈوول سے ملا تھا۔ میں اپنی زندگی میں ڈوبھال سے کبھی نہیں ملا۔ خدا کی قسم۔ ہاں، میں شاہ سے ملا ہوں کیونکہ وہ وزیر داخلہ ہیں اور میں پارلیمنٹ میں تھا۔ یہ میرے کام کا حصہ تھا۔ میں مختلف پارٹیوں کے لوگوں سے ملتا ہوں‘‘۔
آزاد نے کہا’’میں نبی کا غلام ہوں کسی اور کا غلام نہیں ہوں۔ میرا نام آزاد ہے اور میری سوچ بھی آزاد (آزاد) ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور خدا نے انہیں پہلے بھی حملوں سے محفوظ رکھا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پنجاب اور کشمیر میں اب تک مجھ پر پچاس بار حملے ہو چکے ہیں۔ ’’خدا نے مجھے بچایا ہے اور وہ مجھے بچائے گا۔ لیکن اگر خدا میری جان لے گا تو وہ اس زندگی کے ساتھ لے جائے گا جو میں نے اصولوں پر گزاری ہے نہ کہ جھوٹ یا فریب پر۔‘‘
آزاد نے جموںکشمیر کو ’’خوف، بے روزگاری اور بے بسی‘‘ کے سائے سے نکالنے کے لیے عوام سے تعاون طلب کیا۔
گزشتہ ماہ کانگریس چھوڑنے والے آزاد نے کہا کہ وہ ’آزادی‘،’خودمختاری‘ یا ’خود حکمرانی‘ جیسے جذباتی مسائل کو نہیں اٹھائیں گے، بلکہ صرف ان مسائل پر بات کریں گے جنہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں ان لیڈروں کی طرح نہیں ہوں کہ میں الیکشن جیتنے کے لیے آپ کے جذبات سے کھیلوں‘‘۔
آزاد نے کہا کہ لیڈر بننے کے دو طریقے ہیں ‘ ایک جذباتی نعرے لگانا اور دوسرا صرف ان مسائل کے بارے میں بات کرنا جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔
سابق کانگریسی لیڈرکاکہنا تھا’’میں کہوں گا کہ تمہیں آزادی ملے گی۔ لیکن، آپ کو یہ نہیں ملے گی۔ کیا آپ کو یہ پچھلے۷۵ سالوں سے ملی ہے؟ میں کہوں گا کہ آپ کو خود مختاری (این سی کا مطالبہ) یا سیلف رول (پی دی پی کامطالبہ) ملے گی۔ ان نعروں پر کئی الیکشن لڑے گئے، آپ نے تجربہ کیا ہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بجائے، انہوں نے صرف موت کی گنتی میں اضافہ کیا ہے۔ تو، میں ایسے نعرے کیوں لگاؤں‘‘۔
آزاد نے کہا کہ اگر کچھ لوگ آرٹیکل ۳۷۰ کی واپسی کا وعدہ کر رہے ہیں ‘ جسے مرکز نے اگست ۲۰۱۹ میں ختم کر دیا تھا ‘’’انہیں ایسا کہنے دیں‘، لیکن میں لوگوں کو کسی ایسی چیز کی ضمانت نہیں دوں گا جس پر میرا کا کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’ان لوگوں نے جو پچھلے وعدے کیے تھے ان کا کیا ہوا؟…میں آپ سے ترقی کا وعدہ کر سکتا ہوں۔ میں یقینی بناؤں گا کہ آپ کو باوقار زندگی ملے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی بھی پولیس والا یا آرمی والا میرے گجر بکروال یا کشمیری بھائیوں کے گھروں کے دروازے پر رات گئے نہیں کھٹکھٹائے گا‘‘۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ غریبوں یا امیر لوگوں کے بچوں کو جیل میں نہیں ڈالا جائے گا اور پیسے کے عوض کٹھوعہ یا ملک کی کسی اور جیل میں نہیں بھیجا جائے گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی بھی ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی بے عزتی نہیں کرے گا۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ’جعلی‘ جھڑپیں نہیں ہوں گی۔
آزاد نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے فلور پر وعدہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔
سابق کانگریسی لیڈر نے کہا’’ایک بار ریاست کا درجہ بحال ہونے کے بعد، میں یہ ضمانت بھی دے سکتا ہوں کہ جموںکشمیر میں زمین اور ملازمت کے حقوق صرف مقامی لوگوں کو دیئے جائیں گے‘‘۔انہوںنے کہا’’میں آپ کو وہ ضمانتیں نہیں دے سکتا جو میرے ہاتھ میں نہیں ہیں‘‘۔
جموںکشمیر کی سیاحت کی صلاحیت اور اس شعبے سے روزگار پیدا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ’تجربہ اور بہت سی اسکیمیں ذہن میں ہیں‘ جو ہر سال دو کروڑ سیاحوں کو یو ٹی میں لا سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا ’’یہ چیزیں اس طرح کی جا سکتی ہیں جیسے میں نے ماضی میں کی ہیں‘‘۔
راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے سابق لیڈر نے کہا کہ وہ شاید ملک کے واحد سیاست دان ہیں جو سیاسی پارٹی بنانے سے پہلے عوام کے پاس گئے ہیں۔’’۹۹ فیصد لوگ پہلے پارٹی بناتے ہیں پھر عوام کے پاس جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ملک یا دنیا کا پہلا شخص ہوں، جو عوامی وفود سے مل کر پارٹی بنا رہا ہوں‘‘۔
آزاد ا مزید کہنا تھا’’میرے تجربے نے مجھے سکھایا کہ مجھے پہلے لوگوں کے پاس جانا چاہیے، ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ مجھے سپورٹ کریں گے یا نہیں اور پھر پارٹی بنائیں گے۔ جب عوام میرا ساتھ دیں گے تو ان میں سے ہر کوئی غلام نبی آزاد ہوگا کیونکہ وہ اس پارٹی کے فیصلوں کا حصہ ہوں گے’’۔
اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے، انہوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ انہیں نئی سیاسی جماعت بنانے کی اجازت دیتے ہیں، جس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
سابق وزیر اعلیٰ نے پوچھا’’کیا آپ نئی پارٹی چلائیں گے؟ کیا آپ اسے اقتدار تک پہنچانے میں مدد کریں گے؟ کیا آپ خوشحال کشمیر بنانے کے میرے ایجنڈے کی حمایت کریں گے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا ’ضرور‘۔
آزاد نے کہا’’میں قومی سطح پر سیاست میں مصروف ہو سکتا تھا، عروج پر پہنچ سکتا تھا۔ لیکن، میں نے سوچا، میرا گھر،جموں کشمیر جل رہا ہے۔ یہ بے روزگاری، خوف اور بے بسی کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے، اور مجھے اس کی مدد کرنی ہے۔‘‘ انہوں نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا ساتھ دیں۔