ماضی کے اپنے کردار کو سو پردوں کی اوٹ میں کرکے نیا سیاسی لباس زیب تن کرکے عوا م کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش صرف سیاستدانوں کاہی شیوہ ہے اور کشمیر کے بعض سیاستدان اس میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
جب پورے ملک میں کانگریس اپنے راج کی طوطی بلوایا کرتی تھی تو جموںوکشمیر میں بھی اس اقتدار کے بل پر فراڈ الیکشنوں سے تشکیل دی جاتی رہی میڈ ان دہلی حکومتوں کو مہر ہ بنا کر جموںوکشمیر کو دی گئی آئینی اور جمہوری ضمانتوں کو مسلسل پامال بناکر چن چن کر اور ایک ایک کرکے ان ضمانتوں اور تحفظات کو چھینا جاتارہا۔آلہ کار اور مہروں کا کردار اداکرنے والے اُن ادوار کے کچھ کردار یا اہم ستون آج کی تاریخ میں کانگریس کو تیاگ کر دوسری سیاسی پارٹیوں میں خیمہ زن نظرآرہے ہیں اور وقفے وقفے سے کچھ ایسے بیانات ان کی جانب سے سامنے آرہے ہیں جو ان کے ماضی کے کردار کے بالکل برعکس اور ضد ہیں۔
مثلاً جو کچھ سیاستدان کانگریس سے وابستہ رہے ہیں یا ا س حوالہ سے وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں اپنی اُس ملازمت کے دوران انہوںنے کبھی اپنی ہائی کمان اور ہائی کمان کی قیادت میں دہلی میں برسراقتدار حکومتوں سے یہ سوال نہیں کیا کہ کیوں آئین میںدی گئی ضماتوں اور تحفظات کو ایک ایک کرکے سلب کرنے کا راستہ اختیار کیاجارہاہے۔پہلے وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو نے پارلیمنٹ میں دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے جب یہ بیان دیا کہ ’’ یہ دفعہ آہستہ آہستہ اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہوکر محض کاغذ کا ایک ٹکڑا بن جائیگی‘‘ تو جموں وکشمیر کے کسی کانگریسی لیڈر ، کانگریسی وزیر یا کانگریس پارٹی کے کسی عہدیدار نے احتجاج کیا اور نہ ہی نہرو سے سوال کرنے کی جرأت کی۔
لیکن آج اُسی دور کے ایک کانگریسی وزیر جو دوسرا سیاسی لباس پہن کر سجاد غنی لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس سے وابستہ ہیں یہ اعلان کررہے ہیں کہ ’’دفعہ۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے وہ پرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھیں گے،کیونکہ بقول ان کے یہ دفعہ ملک اور جموںوکشمیر کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
دہلی میںکانگریس کی برسراقتدار حکومتوں اور جموں وکشمیرمیں میڈ ان دہلی حکومتوں کا یہ کردار تاریخی ہے جس کو جھٹلانے کی کوئی معمولی سی سعی بھی مضحکہ خیز ہے۔ سابق کانگریسیوں کی بات ایک طرف آج جو لوگ کانگریس سے وابستہ ہیں اور جموں وکشمیر کے لوگوں کے آئینی حقوق کی بحالی کی بات کررہے ہیں کے بارے میں یہی کہنا مناسب ہے کہ یہ لوگ شتر مرغ کا سا کرداراداکررہے ہیں۔ تقریباً چھ ، سات سال تک جموں وکشمیر کانگریس کی قیادت کررہے جے اے میر اور ان کے کچھ دوسرے ساتھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے غلام نبی آزاد کو نہ صرف موقعہ پرست اور دغاباز قرار دے رہے ہیں بلکہ جموں وکشمیر کے حوالہ سے کانگریس کے ایجنڈا کو ہائی جیک کرلے جانے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ صرف اور صرف کانگریس ہی وہ واحد پارٹی ہے جو ریاستی درجہ کی بحالی، لینڈ اور ملازمتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس تعلق سے ۱۷؍ جنوری ۲۰۲۰ء کے پارٹی کی ایک قرارداد کا بھی حوالہ دیاجارہاہے۔
بے شک کانگریس ریاستی درجہ کی بحالی کامطالبہ دو سال قبل بھی کرچکی ہے اور فی الوقت بھی کررہی ہے لیکن گذرے دو سے زائد برسوں کے دوران پارٹی نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر بحیثیت ملک کی مین اپوزیشن پارٹی کے کیا کوئی آواز بلند کی، کوئی فعال اور متحرک رول اداکیا، بادی النظرمیں جواب نفی میں ہے۔ البتہ غلام نبی آزاد واحدکانگریسی تھے جو اس تعلق سے آواز بلند کرتے رہے۔
ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ ایک کروڑ ۲۵؍ لاکھ جموں وکشمیر کے شہری بھی کررہے ہیں اور مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں بھی۔ا س تعلق سے اگر کانگریس بھی ہاں میں ہاں ملاتی نظرآرہی ہے تو کون سا احسان جموں وکشمیرکے لوگوں پر کررہی ہے یا جتلانے کی کوششیں کررہی ہے۔جبکہ مرکزی حکومت اس حوالہ سے اپنا نظریہ اور روڈ میپ پہلے سے واضح کرتی چلی آرہی ہے کہ الیکشن کے بعد مناسب وقت پر ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا۔ مرکز کے اس مخصوص روڈ میپ کے تناظرمیں ریاستی درجہ کی بحالی پر بحث غیر متعلقہ اور غیر ضروری محسوس ہورہی ہے البتہ پارٹیاں مطالبہ کرنے کی دوڑ میں اپنی شرکت کو یقینی بناکر درحقیقت کریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی یہ ڈرامہ بازیاں عوام کی نظروں میں ہے جبکہ گذرے تین برسوں کے دوران ان کا جو بھی رول رہاہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
بیان بازیوں یا شعلہ بیانیوں کے سہارے میدان سرنہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ عملی جدوجہد مذاکراتی پراسیس میںشرکت اور عوام کے احساسات اور جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر فکر وعمل کو فعال اور متحرک کرنے سے ہی اہداف کا حصول ممکن بن سکتا ہے۔ کشمیرنشین کم وبیش سبھی سیاسی قومی دھارے کی جماعتوں نے اس تناظرمیں بیان بازی، ایک دوسرے کی طعنہ زنی، چولیوں کے پیچھے کیا ہے ، کردارکشی ، ایک دوسرے کو کسی کی اے، کسی کی بی اور کسی کی سی ٹیم کا خطاب عطاکرنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟ کوئی ۳۷۰؍ کی بحالی کا بھی مطالبہ کررہا ہے تو کوئی مخالفت ، حالانکہ معاملہ اعلیٰ عدالت کے زیر سماعت (زیر التواء)ہے لیکن اس کے باوجود بیان بازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مرحو م شیخ محمدعبداللہ نے بھی اپنے اقتدار کیلئے دفعہ ۳۷۰؍ کو ’’کوئی آسمانی صحیفہ ‘‘ نہیں قراردیاتھا۔
کانگریس اس حوالہ سے کسی بھی اخلاقی وکٹ پرکھڑی نہیں جبکہ کانگریس کی ہمالیائی حجم کی عہد شکنیوں کے باوجود اس پارٹی کا دم چھلہ کا کرداراداکرنے والی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس کی قیادت کسی بھی حوالہ سے یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے کبھی کسی مرحلہ پر کانگریس کو آئینی حقوق اور آئینی ضمانتیں سلب کرنے کی کوششوں سے روکنے کی کوشش کی یا بطور احتجاج یا ناراضگی اظہار کے ہاتھ روک لیا۔
۵؍اگست کے تناظرمیں جموں وکشمیر بدل رہاہے اس حقیقت کو پارٹیاں تسلیم کرلیں اور پھر وہ کرداراداکرنے کیلئے میدان میں آجائیں جس سے عوام کی فلاح، بہبود ،ترقی اور امن کے راستے ہموار ہوسکیں۔تخریبی سیاست کیلئے اب کوئی جگہ نہیں۔