سرینگر//
وادی کشمیر ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور آج بھی اس سرزمین سے ایسے شعرا و ادبا ادبی افق پر نمودار ہو رہے ہیں جو اپنے رشحات قلم سے ادبی دنیا میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔
وادی میں نوجوان قلم کاروں کی ایک بڑی کہکشاں بھی ہر گذرتے ہوئے دن کے سا تھ روشن سے روشن تر ہو رہی ہے جو اپنی مادری زبان کشمیری کے علاوہ انگریزی اور اردو زبانوں میں بھی طبع آزمائی کر کے اپنے بزرگوں کی شمع کو فروزاں رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیری زبان کے نوجوان شاعر و ادیب آصف طارق بٹ کا کشمیری زبان میں لکھا گیا ناول ’خوابن خیالن منز‘ جس کا اردو میں ترجمہ’خوابوں خیالوں میں‘ کیا جا سکتا ہے ، وادی کے ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل کر رہاہے ۔
وسطی ضلع گاندربل کے دادر ہامہ علاقے سے تعلق رکھنے ۲۲سالہ آصف کایہ پہلا ناول ہے ۔اس ناول کو’علی محمد اینڈ سنز‘نے چھاپا ہے اور اور بازار میں اس کتاب کی قیمت۲۹۹روپے ہے ۔
نوجوان ناول نگار نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ پہلے ایڈیشن میں تین سو کاپیاں چھاپی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔انہوں نے کہا کہ اب اس ناول کا دوسرا ایڈیشن چھاپا جا رہا ہے ۔
ان کا کہنا ہے’’میں نے یہ ناول لکھ کر کشمیری زبان و ادب کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور اس میں نے تمام جدید فنی محاسن کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ‘۔
طارق کا کہنا ہے کہ ناول کی کہانی پر میں نے کئی برسوں تک کام کیا۔انہوں نے کہا’’مجھے پوری امید ہے کہ اب ہمارے نوجوان قلمکار کشمیری زبان میں بھی کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کریں گے ‘۔
ان کا کہنا تھا’’میں پہلے صرف شاعری کرتا تھا میں نے بعد میں نثر لکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وادی میں نثر لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے جبکہ کشمیری زبان کے شاعروں کی تعداد کافی بڑی ہے ‘‘۔
نوجوان ادیب نے کہا ’’ میں کشمیری زبان میں ایک ایساناول لکھنا چاہتا تھا جس کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوسکے اور اس کو تسلیم کیا جائے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان میں مشہور ناولوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
طارق کا کہنا ہے ’’شاعری کرنے یا افسانے لکھنے سے مجھے تسلی نہیں ہوتی تھی میں کچھ مزید لکھنے کی تلاش میں تھا اور ناول لکھنے سے مجھے راستہ مل گیا ہے ‘‘۔انکا کہنا ہے کہ میرے اس ناول کا موضوع ’جادوئی حقیقت‘ہے ۔
نوجوان ناول نگارنے کہا کہ یہ ناول خِیالی اور حقیقی دنیا کے درمیان وہ کہانی ہے جو ہر کسی کے ذہن میں ہوتی ہے جب وہ دن بھر کے کام کاج کے بعد گھر واپس لوٹتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ وادی کے معروف قلمکار محمد شفیع شوق نے اس ناول کی ’تمہید‘لکھی ہے جو میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے ۔نوجوان ناول نگار کا کہنا ہے کہ ناول کی کامیابی کا سہرا ماضی میں لکھے گئے چند نالوں کے سر جاتا ہے ۔