نئی دہلی/۲۲ مارچ
مرکزی وزیر نتیا نند رائے نے منگل کو لوک سبھا میں کہا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے مختلف لانچ پیڈز پر عسکریت پسندوں کی کافی تعداد موجود ہے۔
رائے نے تاہم کہا کہ سرحد پار سے دراندازی کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔ان کا کہنا تھا۲۰۲۱ میں۳۴ جبکہ ۲۰۲۰ میں۵۱‘۲۰۱۹ میں۱۳۸؍ اور۲۰۱۸ میں۱۴۳ تھی۔
پاکستان اور بھارت ایک سال سے زائد عرصے سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کی پاسداری کر رہے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان نے ایل او سی کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ بنایا ہے اور کیا عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے لانچ پیڈز سے دراندازی کی کوشش کی ہے، مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا ’’درکارمعلومات قومی سلامتی کے حوالے سے ایک حساس آپریشنل معاملہ جسے قومی سلامتی کے مفاد میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
تاہم رائے نے کہا کہ مرکزی حکومت کنٹرول لائن کے ساتھ سیکورٹی کی صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیتی ہے اور خطرناک عناصر بشمول عسکریت پسندوں کی طرف سے کسی بھی اقدام کو ناکام بنانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہے۔
رائے کاکہنا تھا کہ حکومت نے سرحد پار سے دراندازی کو روکنے کے لیے کثیر الجہتی طریقہ اپنایا ہے۔ اس میں بین الاقوامی سرحد،لائن آف کنٹرول کے ساتھ ملٹی ٹائرڈ تعیناتی، سرحد پر باڑ لگانا، بہتر انٹیلی جنس اور آپریشنل کوآرڈینیشن، سیکورٹی فورسز کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا اور دراندازوں کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے۔
اس دوران اقلیتی بہبود کے وزیر مختار عباس نقوی نے آج کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات تیزی سے بہتر ہوئے ہیں اور وہاں پر تیز رفتار ترقی کیلئے سب کو مل کر کوششیں کرنی چاہئیں۔
جموں کشمیر کے سال۲۰۲۲۔۲۰۲۳کے بجٹ اور تخصیص بل نمبر۲پر بحث کے دوران راجیہ سبھا میں مداخلت کرتے ہوئے نقوی نے کہا کہ ہم سب کو اس ریاست کی ترقی اور مضبوطی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ جموںکشمیر میں خلیجی ممالک کا ۳۶رکنی وفد وہاں کاروباری امکانات کے لیے کا دورہ کر رہاہے ۔ وہ زرعی شعبے کے ساتھ ساتھ درآمدی برآمدات اور مواصلات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نے جموں و کشمیر میں دفعہ۳۷۰کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا اور اسے پورا کیا گیا ہے ۔’’ جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور۱۶۴قوانین پر وہاں عمل درآمد نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آتے تھیں‘‘۔
نقوی نے کہا کہ جو دہشت گرد وہاں کے لوگوں کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، انہیں سیکورٹی فورسز نے ختم کر دیا ہے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور لوگ دہشت گردی کے جال سے نکل رہے ہیں۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ وہاں سیاسی عمل شروع ہو چکا ہے اور پنچایتی انتخابات کرائے گئے ہیں۔ ’’اس عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عام لوگوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ریاست میں میڈیکل کالج اور ایمس کھولے جا رہے ہیں۔ سیاحتی مقام گلمرگ کے گاؤوں میں نل سے پانی کی سپلائی کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔ یہ سہولت ان جگہوں پر دی جارہی ہے جہاں لوگ دور دور سے پینے کا پانی لاتے تھے ‘‘۔
اس سے پہلے کانگریس کی رجنی اشوک راو پاٹل نے کہا کہ کووڈ انفیکشن کی وجہ سے جموں و کشمیر کی سیاحت کی صنعت پچھلے تین سالوں کے دوران بری طرح متاثر ہوئی ہے اور بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔رجنی کاکہنا تھا’’ محکمہ پولیس میں تقریباً دس ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ ڈل جھیل کا پانی بری طرح آلودہ ہو چکا ہے اور وہاں بدبو پھیل رہی ہے ۔ اس کی صفائی کے لیے کچھ رقم دی گئی ہے ۔ سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا ہے ‘‘۔
ریاست میں امن و امان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں کئی سرپنچوں کو قتل کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست سے باہر کے لوگ بھی مارے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ہمیشہ جموں و کشمیر کو ملک سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔