تحریر:ہارون رشید شاہ
لگتا ہے کہ آزاد صاحب … اپنے غلام نبی آزاد صاحب سچ میں سیاست چھوڑنے والے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ اچانک سے انہوں نے سچ بولنا شروع کردیا ہے …اور آپ یا تو سیاستدان ہو سکتے ہو یا پھر سچے … آپ سچے بھی ہوں اور سیاستدان بھی … صاحب کس زمانے کی بات کرتے ہو!یہ ممکن نہیں ‘ بالکل بھی نہیں ۔ ویسے بھی آزاد صاحب کیلئے سیاست کو خیر باد کہنا ہی ٹھیک رہی گا اور… اور اس لئے رہے گا کیونکہ جس جماعت سے ان کی وابستگی ہے … اس کا حال بے حال دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے اور… اور سو فیصد کہہ سکتا ہے کہ کانگریس کی دکان بند ہو نے والی ہے… اگر دکان بند ہوگی بھی نہیں ‘ لیکن یہ اس مقام پر پہنچ جائیگی جہاں اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہو گا ۔اور سچ پو چھئے تو یہ جماعت بڑی شان و شوکت کے ساتھ اسی مقام کی جانب بڑھ رہی ہے ۔خیر !آزاد صاحب کاکہنا ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں … اور سوفیصد کرتے ہیں … پھر چاہے ان کی جماعت ہو یا کوئی اور جماعت ‘ وہ لوگوں کو… عام ہندوستانیوں کو مذہب کے نام پر ‘فرقوں کے نام پر ‘ مسالک کے نام پر تقسیم کرتے ہیں اور… اور اس منظر نامہ سے دل برداشتہ ہوکر آزاد صاحب سیاست کو الوداع کہنا چاہتے ہیں یا ایسا من بنا رکھا ہے … ہم نہیں جانتے ہیں کہ کیا آزاد صاحب واقعی میں ایسا کر سکتے ہیں … ایسا کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں یا نہیں … لیکن ایک بات جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان جناب نے بالکل سچ کہا کہ … کہ سیاستدا ن بھارت دیش کے لوگوں کو تقسیم کررہے ہیں… یہ سچ ہے ‘ایسا سچ جو صرف بھارت اور بھارت دیش کی سیاسی جماعتوں کا سچ نہیں ہے … جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک کا بھی سچ ہے … ان ممالک میں بھی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تو یہیں کرتے آئے ہیں … کہ… کہ اس کے بغیر ان کی سیاسی دکان چل نہیں سکتی ہے … ہندوؤں کو مسلمانوں سے لڑوانا ‘ مسلمانوں کے مختلف مسالک میں تقسیم کے بیج بو دینا ‘ہندؤں کی اوپر اور نچلی ذاتوں میں خط امیتاز کھینچنا …اگر سیاسی جماعتیں یہ نہیں کریں گی تو… تو کھائیں گی کیا کہ … کہ اسی ایک بات سے تو ان کی دکانیں چلتی ہیں…آزاد صاحب سچ کہہ رہے ہیں… ہاں لیکن انہوں نے اس سچ کو کہنے یا پھر سمجھنے میں دیر نہیں بلکہ بہت دیر کر دی … کیوں کردی ‘ ہم نہیں جانتے ہیں ‘ بالکل بھی نہیں جانتے ہیں ۔ ہے نا؟