سرینگر/۱۰؍اگست لشکر کمانڈر لطیف راتھرنے سال 2001 میں جنگجو تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی وادی میں اس وقت 80 مقامی اور 45 سے 50 غیر ملکی جنگجو سرگرم : اے ڈی جی پیسرینگر/۱۰؍اگست
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس(اے ڈی جی پی) وجے کمار کا کہنا ہے کہ وتر وہیل خانصاحب میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں تین جنگجو مارے گئے جن میں ایک سیکورٹی فورسز کو انتہائی مطلوب لشکر کمانڈر لطیف راتھر بھی شامل ہیں جس نے سیکورٹی فورسز کو کافی پریشان کیا ہوا تھا۔
کمار نے بتایا کہ وادی کشمیر میں اس وقت ۸۰مقامی اور ۴۵سے ۵۰غیر ملکی جنگجو سرگرم ہیں جبکہ سری نگر ضلع میں ایک مقامی ملی ٹینٹ ایکٹیو ہے ۔
ان باتوں کا اظہار کمار نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اے ڈی جی پی نے بتایا کہ منگل کی شام کو سرینگر پولیس کو ٹیکنیکی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وتر ہیل خانصاحب میں تین جنگجو چھپے بیٹھے ہیں جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے درمیانی شب اس علاقے کو محاصرے میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا۔
کمار نے بتایا کہ رات کے دوران ہی وتر ہیل خانصاحب میں سیکورٹی فورسز اور جنگجووں کے مابین جھڑپ شروع ہوئی جو تیرہ گھنٹے تک جاری رہی جس دوران لشکر کمانڈر لطیف راتھر عرف عبداللہ سمیت تین جنگجو مارے گئے ۔انہوں نے بتایا کہ لطیف راتھر کی ہلاکت سیکورٹی فورسز کیلئے بڑی کامیابی ہے کیونکہ اُس نے ہمیں کافی پریشان کیا تھا۔
اے ڈی جی پی نے بتایا کہ لطیف راتھر نامی جنگجو کمانڈر سال۲۰۰۱میں ملی ٹینٹ تنظیم میں شامل ہوا اور لگاتار تیرہ برس یعنی ۲۰۱۳تک اس سے جڑا رہا ۔انہوں نے بتایا کہ سال۲۰۱۳میںاس کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور پچھلے سال ۲۰۲۱کے دسمبرمہینے میں صحت کی بنیادپر اس کو رہا کیا گیا اور رہائی پاتے ہی اُس نے دوبارہ ملی ٹینٹ صفوں میں شمولیت اختیار کی ۔
کمار نے بتایا کہ۲۴جون۲۰۱۳کو حیدر پورہ میں فوجی کانوائی پر حملہ ہوا اور اُس حملے میں جنگجوؤں کی معاونت لطیف راتھر نے ہی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ حملے کو انجام دینے کی خاطر لطیف راتھر نے غیر ملکی جنگجو کو اپنے گھر پر رکھا اور اپنی گاڑی کے ذریعے حیدر پورہ تک پہنچایا جس کے بعد فوجی کانوائی پر حملہ کیا گیا جس میں آٹھ جوان شہید ہوئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ لطیف راتھر ابو قاسم کا دست راست تھا ۔
اے ڈی جی پی نے بتایاکہ دسمبر۲۰۲۱میں رہائی کے بعدلطیف راتھر نے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی اور تب سے اُس نے لوگوں کا جینا حرام کیا تھا۔انہوں نے مزید کہاکہ اس سال مئی کے مہینے میں چاڈورہ میں کشمیری پنڈت ملازم راہول بھٹ اور امبرین بھٹ پرقاتلانہ حملہ اسی نے کیا تھا۔اے ڈی جی پی کے مطابق لطیف راتھر کی ہلاکت سیکورٹی فورسز کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے ۔
سری نگر میں سرگرم جنگجووں کی تعداد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اے ڈی جی پی نے کہا کہ فی الوقت سرینگر میں ایک جنگجو مومن سرگرم ہے اور کھبی کھبار باسط ڈار جو جنوبی کشمیر کا ساکن ہے یہاں آیا کرتا ہے جس کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں۔
اے ڈی جی پی نے بتایا کہ پچھلے دو سال کے دوران جتنی بھی ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات ہوئے اُن میں ملوث سبھی جنگجوؤں کو مار گرایا گیا ہے اور اب صرف باسط ڈار بچ گیا ہے جس کو بہت جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔
اُن کے مطا بق باسط ڈار کولگام کا ساکن ہے اور جس دن مہران کو سرینگر میں مار گرایا گیا اُس روز وہ زخمی ہوا کر جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔
کمار نے مزید کہاکہ جنوبی اور شمالی کشمیر میں سرگرم جنگجو سری نگر آتے جاتے رہتے ہیں اور آج کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الوقت وادی کشمیر میں۸۰مقامی اور ۴۵سے۵۰غیر ملکی جنگجو سرگرم ہیں۔
اے ڈی جی پی کے مطابق امسال۱۳۰جنگجوؤں کو مار گرایا گیااس کے علاوہ ملی ٹینٹوں کے دو گائیڈ بھی تصادم کے دوران مارے گئے ۔
ایک اور سوال کے جواب میں اے ڈی جی پی نے کہاکہ مارے گئے ملی ٹینٹوں میں۳۵فیصد ہابرڈ ملی ٹینٹ تھے ۔انہوں نے ایک دفعہ پھر واضح کیا کہ ہابرڈ جنگجو اب ہمارے لئے کوئی چیلنج نہیں کیونکہ ٹیکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اب اُن کی شناخت کرنا آسان ہو گیا ہے ۔
کمار نے بتایا کہ امسال ہم نے بہت سارے ہابرڈ جنگجو ؤں کی گھر واپسی کو یقینی بنایا اور اس بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا ہے کیونکہ یہ معاملہ اگر صغیہ راز میں رہیں تو اُن کے لئے بہت رہوگا۔
اے ڈی جی پی نے کہاکہ ہابرڈ جنگجو دراصل آن لائن موڑ کے ذریعے ملی ٹینٹ تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور اس بارے میں سیکورٹی فورسز کو قبل از وقت جانکاری نہیں ملتی۔انہوں نے بتایاکہ آج بھی سیکورٹی فورسزنے پلوامہ میں ایک آئی ای ڈی کو ناکارہ بنایا لہذا آئی ای ڈیز کا خطرہ برقرار ہے ۔