نئی دہلی//
راجیہ سبھا میں منگل کو حزب اختلاف اور حکمراں جماعت نے ملک میں بڑھتی مہنگائی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ کیا۔
اپوزیشن نے مہنگائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانے کی کوشش کی جبکہ حکمران جماعت نے عالمی عنصر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کے الامار کریم نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے ، جی ایس ٹی کی ذیلی کمیٹی میں ضروری اشیاء پر۵فیصد جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ متفقہ طور پر نہیں کیا گیا۔
کیرالہ سمیت کئی ریاستوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔ کیرالہ حکومت گزشتہ سات سالوں سے عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے۱۴ضروری اشیاء کی تقسیم کر رہی ہے ، جس کی وجہ سے کھلے بازار میں بھی ان کی قیمتیں مستحکم ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرکاش جاؤڈیکر نے کہا کہ مہنگائی ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر کسی کو تکلیف ہوتی ہے ، لیکن دنیا میں کون سا ملک ہے جہاں مہنگائی نہیں بڑھی؟ افراط زر آمدنی کی نسبت بڑھتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے ۔ کسانوں کو مناسب قیمت دی جائے ۔
جاؤڈیکرنے کہاکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ کسانوں کو فائدہ کی قیمت ملنی چاہیے لیکن عام لوگوں کو سستا ملنا چاہیے ۔انہوں نے کہا’’ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں۸۰کروڑ لوگوں کو دو سال تک مفت راشن دیا گیا، جس پر۷۱ء۲لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوئے ۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت ۳۰روپے فی کلو کے حساب سے چاول خریدتی ہے اور ریاستوں کو۳روپے فی کلو دیتی ہے ۔
حکمران جماعت کے لیڈر نے کہا کہ اب تک جی ایس ٹی کونسل میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوئے ہیں لیکن اندر کوئی اور بات اور باہر آکر گبر سنگھ ٹیکس بتاتے ہیں۔انہوں نے کہا’’ اپوزیشن کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ متحدہ ترقی پسند اتحاد کی حکومت کے دور میں مسلسل نو سال تک مہنگائی دوہرے ہندسے میں رہی لیکن قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کے دور میں پانچ سال تک مہنگائی پانچ فیصد سے نیچے رہی۔ اس کے بعد دو سال تک یہ ۶فیصد سے نیچے رہی اور اس سال یہ۷فیصد تک پہنچی ہے ‘‘۔
کانگریس کے شکتی سنگھ گوہل نے کہا کہ صارفین کے امور کی وزارت کے پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار سے یہ واضح ہے کہ مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بیان بازی پر بہت یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ٹماٹر، پیاز اور آلو (ٹاپ) کو ٹاپ پر پہنچا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ مہنگائی سے پریشان لوگ امید کر رہے تھے کہ کچھ راحت ملے گی لیکن جی ایس ٹی بڑھا کر ان پر مہنگائی لاد دی گئی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تیل پر ٹیکس لگا کر حکومت نے۲۷لاکھ کروڑ روپے کی وصولی کی ہے ، جب کہ آئل بانڈز کیلئے۹۸ہزار کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔
ترنمول کانگریس کے ڈیرک اوبرائن نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں نہ صرف مہنگائی بڑھی ہے بلکہ بے روزگاری بھی بڑھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حکومتی اعداد و شمار پر مبنی ہے ۔
وائی ایس آر سی پی کے کے وجئے سائی ریڈی نے کہا کہ خوردہ بازار صارفین کو متاثر کرتا ہے ۔ حکومت ریٹیل مارکیٹ کو کنٹرول کرے ۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے ۔ اگر ہم سال۲۰۰۰کے تناظر میں دیکھیں تو ایک لاکھ روپے کی قیمت صرف۲۷۰۰۰روپے رہ گئی ہے ۔
ریڈی نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی گر رہا ہے جبکہ حکومت کا کام معیار زندگی کو بہتر بنانا ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں میں معیار زندگی کو یقینی بنانا ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کا ریونیو نقصان اس کا ثبوت ہے ۔ مختلف اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معیشت کی شرح نمو میں کمی آرہی ہے ۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔
بیجو جنتا دل کے سجیت کمار نے کہا کہ یہ دنیا کے لیے مشکل وقت ہے اور ملک بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا ہے ۔ قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور عام لوگوں کا جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ مہنگائی کا اثر برطانیہ، روس، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کا بین الاقوامی حالات سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ اسے کھانے پینے کی اشیا اپنی پہنچ میں چاہئیں۔ اس کے لیے حکومت کو پالیسیاں بنانی ہوں گی۔
کمار نے اعدادوشمار کے حوالے سے کہا کہ عام آدمی کی آمدنی کا ۴۲فیصد حصہ کھانے پینے پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اس سے اس کی زندگی کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ حکومت کو اسے کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔