اب صاحب ایسا تو نہیں ہو ناچاہیے تھا … بالکل بھی نہیں ہو نا چاہئے تھا … لیکن کیا کیجئے کہ ایسا ہی ہے… ملک میں رائج آئین اور قانون کچھ اور کہتا ہے اور کچھ لوگوں کی رائے کچھ اور ہو تی ہے … یہ ایک نیا رجحان ہے ‘ جو کچھ برسوں سے پنپ رہا ہے… اور اس رجحان کے چلتے اللہ میاں کی قسم بات کرنی بھی مشکل ہے… اور اس لئے مشکل ہے کہ ابھی آپ نے بات نہیں کی ہوتی ہے کہ… کہ آپ پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں… سب سے بڑا الزام ملک اور قوم دشمن ہو نے کا عائد کیا جاتا ہے… اور ایسے میں قانون اور آئین میں عام لوگوں کو اظہار رائے کی جو آزادی ملی ہے وہ…وہ آزادی قانون اورآئین کی کتابوں تک ہی محدود ہو جاتی ہے… پھر ملک کی کسی عدالت…وہ بھی چھوٹی نہیں ‘ بلکہ کسی بڑی عدالت کو قانون اور آئین کی ان کتابوں میں عام لوگوں کو حاصل آئینی ضمانتوں کو اوراق سے باہر نکال کر حاضر خدمت کرنا پڑتا ہے…ان لوگوں کی خدمت پیش کرنا پڑتا ہے جو اپنی من مرضی کے مطابق ملک کو چلانا چاہتے ہیں… صورتحال یہ ہے کہ کوئی کسی شاعر کا شعر پڑے تو اس پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے… بالی ووڈ کا کوئی گانا گائے تو… تو اس کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے … ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کا دم گھونٹ دیا گیا ہے …لگتا ہے کہ ان صلاحیتوں کو دماغ کے کسی خانے میں مقفل کرنا پڑے گا کیونکہ … کیونکہ اگر ان لوگوں کو آپ کی بات ‘ آپ کے خیالات ‘ آپ کے نظریات‘ آپ کی ان تخلیقی صلاحیتوں سے اتفاق نہیں ہے… وہ انہیں قبول نہیں ہے… وہ ان کے مخصوص نظریات سے متصادم ہیں … ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہیں تو… تو صاحب آپ کی خیر نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ایسے میں عدالت عظمی کا یہ کہنا کہ اظہار رائے پر پابندی ’معقول ہونی چاہئے، خیالی نہیں، خیالات کے اظہار کی آزادی کے بغیر آئین کے آرٹیکل۲۱ کے تحت دی گئی باوقار زندگی گزارنا ناممکن ہے۔ ایک صحت مند جمہوریت میں، مختلف خیالات کا مقابلہ جوابی تقریر کے ذریعے کیا جانا چاہیے، نہ کہ دباؤ کے ذریعے۔ ادب، جس میں شاعری، ڈرامہ، فلمیں، اسٹینڈ اپ کامیڈی، طنز اور آرٹ شامل ہیں، زندگی کو زیادہ بامعنی بناتے ہیں‘… یقینا باعث اطمینان ہے ‘ ان لوگوں کیلئے جو آزادیٔ اظہار میں یقین رکھتے ہیں… ان لوگوں کیلئے تو بالکل بھی نہیں جو ان آئینی ضمانت کا گلا دبانے پر تلے ہیں ۔ ہے نا؟