وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت میں عوام کی منتخبہ حکومت کی بے اختیار ی، بے بسی اور لاچارگی کا ایک اور چہرہ اُس وقت سامنے آیا جب اسمبلی میں سپیکر نے ہنگامہ آرائی اورشور وشر کے تناظرمیں اعلان کیا کہ کھٹوعہ اور یگر مقامات پر ہوئی ہلاکتوں کا معاملہ ایوان میںنہیں اُٹھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی گلمرگ میںمنعقدہ ’عریاں ‘فیشن شو کے حوالہ سے کوئی بحث کیونکہ معاملے کی تحقیقات کا حکم دیاگیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے گلمرگ فیشن شو کے حوالہ سے شدید ردعمل کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی اور غالباً انہیں رپورٹ موصول ہوئی ہے جس کی روشنی میں انہوںنے اعلان کیا کہ اس فیشن شو کے انعقاد میں کوئی سرکاری ادارہ ملوث نہیں بلکہ اس کا انعقاد کسی ہوٹل نے کیا تھا۔ البتہ وزیراعلیٰ نے اپنے ردعمل میں اس فیشن شو کی سوشل میڈیا پر گشت کررہی نیم عریاںعکس بندی پر تشویش اور ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا ہے ۔
ایوان کی کارروائی میں رخنہ اُس وقت پڑا جب کٹھوعہ میںحالیہ سویلین ہلاکتوں کا معاملہ اُٹھایا گیا اورا ن واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔سپیکر نے ممبران کو مشورہ دیا کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں جبکہ یہ معاملہ اسمبلی میں نہ اُٹھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر بحث ہوسکتی ہے کیونکہ یہ امن وقانون کے دائرے میں آتا ہے جو گورنر کے حد اور اختیارات میں ہے۔
تاہم وزیراعلیٰ نے اس معاملے پر بھی اپنی ناپسندیدگی اور برہمی کا یہ کہکر اظہار کیا کہ ایوان میںلیڈر آف اپویشن کو کس نے متعلقہ علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت دی جبکہ ان کے نائب وزیراعلیٰ سریندر چودھری کو جانے سے روک دیاگیا۔ اس حوالہ سے کانگریس کے لیڈر چودھری لال سنگھ کی قیادت میں کانگریس کے ایک وفد کو بھی راستے میں روک دیاگیا اور پولیس نے راستے میںناکہ لگاکر اس کی پیشقدمی روک دی۔ جبکہ بنی بلاور کے رکن اسمبلی ڈاکٹررمیشور سنگھ کے خلاف بھی بدتمیزی کی گئی، کچھ لوگوںنے ان کے خلاف نعرے بازی کی ۔ یہ سارے معاملات وزیراعلیٰ اور اس کی حکومت کی اختیارات کے حوالہ سے محدود یت اور ایسی بے بسی کا عالم ہے کہ اس کی مثال نہیںملتی۔ ایک منتخبہ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ متاثرہ علاقے میں جائے ، متاثرین کی ڈھارس بندھائیں لیکن برعکس اس کے اپوزیشن میںبیٹھے لوگوں کو نہ صر ف جانے کی اجازت اور سہولیت فراہم کیا جارہی ہے بلکہ جلسہ منعقد کرنے اوراُن کی اشتعال انگیز نعرہ بازی کو بھی ناجائز یا غلط تصور نہیں کیا جارہا ہے۔
بار بار اس امر کو واضح کیاجاتا رہا ہے کہ دہشت گردی اور نہ ہی دہشت گرد کا کوئی مذہب ، کوئی اخلاق ،کوئی تہذیب یا کوئی سماجی بندش اور روایت ہوتی ہے اورنہ دہشت گرد خو دکو ایسی کسی قید کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس تلخ زمینی حقیقت کے باوجود دہشت گردانہ معاملات کو مذہب سے جوڑنے کی شرمناک روش برقرار ہے ۔ اگر کوئی مسلمان دہشت گردی میںملوث ہے تو اس کو اسلامی دہشت گردی کا نام دیاجارہاہے جبکہ یہ عمل اس کی ذاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ہندو یا عیسائی دہشت گردی میںملوث ہے تواُس کے اس عمل کو ہندومذہب یا عیسائیت سے جوڑنے یا منسلک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جموں وکشمیر میں دہشت گردی کا تسلسل ۱۹۸۹ء سے ہے۔ کسی بھی مرحلہ پر کشمیر نے بندوق بردار کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی نہ حمایت کی اور نہ ہی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پر کوئی اعتراض کیا، کیونکہ یہ فطرتی عمل ہے کہ جب بندوق، بندوق سے ٹکرا جائے تو ایک بندوق کی موت اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ لیکن اس فطرتی اور ذہنی حقیقت کا بہت کم لوگ اعتراف کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر جنون میں مبتلا دہشت گردانہ واقعات کو مذہبی رنگ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔
بہرحال سوشل میڈیا بھی خاموش نہیں، اس کا ایک حصہ بھی جنونیت کا راستہ اختیار کرتا نظرآرہاہے جبکہ ایک حصہ اس خیال کا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کی مکمل شفافیت اور غیر جانبدارانہ طریقے سے تحقیقات ہونی چاہے۔ اس نوعیت کی سفاکیت کے پیچھے کوئی بھی ہوسکتا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ جموںوکشمیر کی حالیہ تاریخ پر اسرار ہلاکتوں کے تناظرمیں ’’نا معلوم ‘‘ سے بھی منسوب کی جاتی رہی ہے ۔ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ہلاکتوں کو اسی ’نامعلوم ‘ کھاتے کی نذر کیا جاتار ہا ہے جو اندرونی سطح پر تحقیقات کے باوجود اب تک نامعلوم ہی ہیں۔
تصویر کا دوسرا رُخ جو کریہہ ہے یہ ہے کہ بعض سیاستدان اس نوعیت کے بہیمانہ واقعات پر سیاست کرنے کیلئے جٹ سے میدان میں اُتر کر سیاست کی دکانیں سجاتے ہیں۔ اس سیاسی زدگی کے ردعمل میں ماحول میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے بجائے اس کے یہ سیاستدان متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ اشتراک کرکے دہشت گرد واقعات کا قلع قمع کرنے کی سمت میں اپنا کردار اداکرتے ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسانہیں ہورہا ہے۔ اسی نوعیت کا منظرنامہ فی الوقت کھٹوعہ اور جموں وکشمیر کے دوسرے علاقوں ، باالخصوص جہاں کہیں دہشت گردانہ واقعہ پیش آتا ہے دیکھنے میں آرہا ہے ۔
سیاستدان اپنی اس سوچ کو عوام کی ترقیات، فلاحی کاموں کی عمل آوری، سڑک، پانی ، بجلی اور روزگار کے شعبوں میں بہتری کیلئے مرکوز کرتے تو جموںوکشمیر سے دہشت گردی کب کی ختم ہوچکی ہوتی لیکن وہ عنصر جو ماضی میں دہشت گردی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں یا بطور ان کے ایکو سسٹم کے کام کرتے رہے ہیں کو نیا سیاسی جامہ زیب تن کراکے سیاسی میدان میں اُتارانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سیاسی حماقتوںکی تکمیل کیلئے ایسے کچھ کو عارضی رہائی سے نواز جاتا ہے ، کچھ کے سروں سے پابندی کا بوجھ ہٹایا جاتا ہے تو یہی کچھ جب ناکامی کا سہرا اپنے سروں پر سجاتے نظرآرہے ہیں تو ساری سہولیت کاری سے ہاتھ پیچھے ہٹالئے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ عوام کا منڈیٹ ہاتھ میں لئے منتخب ہوجاتے ہیں تو انہیں کام کرنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا جاتا، قوانین، قوائد وضوابط، روایات اور انسانی ہاتھوں ترتیب اور وضع کردہ دیگر فرسودات کی آڑ اور بھاڑ لگا کر ان کا راستہ روک لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار مثبت نہیں بلکہ منفی اور حد درجہ مضحکہ خیز ہے،البتہ اس کو بطور انداز فکر یا کسی پالیسی یا کسی ایجنڈا کے طور گلے کا ہار بنایاجاتا رہے تو ملک کی ترقی رخنہ انداز ہوتی رہیگی جبکہ امن وقانون کا مسئلہ دردِ سربنارہے گا۔
بہرحال گلمرگ میںمنعقدہ فیشن شو کے حوالہ سے سیاحت کی آڑ میں عریانیت کے عریاں مظاہرہ پر اظہار تشویش کافی نہیں، اگر وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کے انعقادمیں حکومت ملوث نہیں تو کیا ضلع ایڈمنسٹریشن کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان لوگو ںکے خلاف کارروائی کرے جو وادی کی اعلیٰ تہذیبی، ثقافتی اورمذہبی روایات کو دانستہ طور سے نقصان پہنچانے اور عوام کی دل آزاری کرنے کے خفیہ ایجنڈا کے معاونت کار کے خدمات کا ر اور سہولیت کار بن رہے ہیں۔