نئی دہلی/ 10 مارچ
سپریم کورٹ نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو مستقل کرنے کی ہدایت دینے والے 2007 کے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہنے پر جموں و کشمیر انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ سرکاری حکام کی ’درسی مثال‘ ہے جیسے وہ قانون سے بالاتر ہیں۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے سرکاری افسروں کی غیر فعالیت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے رویے کو’بادی النظر میں توہین آمیز‘ قرار دیا۔
بار اینڈ بنچ نے عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا”درخواست گزار مرکز کے زیر انتظام علاقے کے افسروں کی غیر فعالیت، جنہیں ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنے میں تقریبا 16 سال لگے، حیران کن ہے“۔
یہ معاملہ 2006 کا ہے، جب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے ایک گروپ نے1994 کے ایس آر او 64 کے تحت مستقل ملازمت اور مناسب اجرت کی مانگ کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے 2007 میں ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ تاہم انتظامیہ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ مزدوروں کو بار بار مبہم احکامات کے ذریعے ہراساں کیا گیا جس میں 2007 کے فیصلے کی روح کو نظر انداز کیا گیا۔عدالت نے ذمہ دار افسران کے خلاف جرمانے عائد کرنے اور انضباطی کارروائی کی سفارش کرنے پر بھی غور کیا لیکن اس سے گریز کیا کیونکہ توہین عدالت کی کارروائی پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
بار اینڈ بنچ نے عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا”ہم فاضل سنگل جج سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہفتہ وار بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کی عظمت اور تقدس کو اچھی طرح سے برقرار رکھا جائے“۔
مرکز کے زیر انتظام علاقے کی نمائندگی ایڈوکیٹ رشاب اگروال نے کی جبکہ ملازمین کی طرف سے وکیل شعیب قریشی پیش ہوئے۔