جموں/۶مارچ
جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے جمعرات کو لوگوں کو یقین دلایا کہ نیشنل کانفرنس کی زیرقیادت حکومت اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا کرے گی جس میں قیدیوں سے متعلق وعدے اور سرکاری ملازمین کو’من مانے‘طور پر برطرف کرنا شامل ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت پورے پانچ سال کےلئے تشکیل دی گئی ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسمبلی کے اگلا بجٹ اجلاس کا آغاز لیفٹیننٹ گورنر کے بجائے گورنر کریں گے۔
یہاں قانون ساز اسمبلی میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے خطاب پر تحریک تشکر پر بحث کاجواب دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے منشور کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے جو ہم نے بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا ہے اور یہ جموں و کشمیر کے عوام سے ہمارا وعدہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ”جب ہم نے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں پانچ سال دیں…. ہم عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اے سے زیڈ تک کے تمام وعدوں کو پورا کریں گے، چاہے وہ قیدیوں سے متعلق ہوں یا سرکاری ملازمین کی برطرفی سے متعلق ہوں۔ ہم ایسا کرنے کے پابند ہیں“۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں سیاسی قیدیوں اور نوجوانوں کی رہائی کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا تھا جنہیں جیلوں میں غیر منصفانہ طور پر نظربند کیا گیا ہے اور وہ سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
منشور میں سرکاری ملازمین کی’غیر منصفانہ‘ برطرفی کو ختم کرنے کی بھی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ’یہ غیر منصفانہ ملازمت سے برطرفی کے معاملات کو حل اور درست کرے گا، تمام ملازمین کے ساتھ منصفانہ سلوک اور ملازمت کے تحفظ کو یقینی بنائے گا‘۔
ایل جی کے خطاب پر کچھ ممبروں کی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ ایل جی حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد نومبر کے اجلاس میں کی گئی اپنی سابقہ تقریر کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اور یہ اس تقریر کے علاوہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”کچھ (ممبران) نے اسے (نیشنل کانفرنس سے بی جے پی کو) محبت کا خط قرار دیا۔ میں اس میں نہیں جاو¿ں گا لیکن یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے نئے اضافے کیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے سال جب ہم (بجٹ سیشن کے لئے) ملیں گے تو لیفٹیننٹ گورنر کے بجائے ایک گورنر ہوگا“۔
عمرعبداللہ نے اپوزیشن لیڈر سنیل شرما کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے تقریر کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اگر آپ پی ایس اے کا استعمال کررہے ہیں تو آپ کا کیس کمزور ہے۔ آپ نے مجھے (دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد) چھ مہینے کے لئے احتیاطی حراست میں رکھا کیونکہ میرے خلاف کوئی الزام نہیں تھا۔ لیکن یہ بہتر ہے کہ پتھراو¿ کرنے والوں یا اوور گراو¿نڈ کارکنوں کے خلاف قانون کی متعلقہ دفعات کا استعمال کیا جائے جن کے خلاف پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے“۔
وزیر اعلیٰ نے دفعہ 370 کو ترقی اور دہشت گردی سے جوڑنے کے لئے شرما سے سوال کیا اور کہا کہ ”کیا انہوں نے جن ترقیاتی منصوبوں کی بات کی ہے وہ صرف دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی ممکن ہیں“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر پروجیکٹ 2014 سے پہلے شروع ہوئے تھے اور انہوں نے بی جے پی لیڈر کو چیلنج دیا کہ وہ ایوان کو ایک ایسے پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں جو آرٹیکل 370 اسٹیٹس کے تحت مکمل کرنا ممکن نہیں ہے۔
عمرعبداللہ نے درج فہرست قبائل برادری کو دیئے گئے سیاسی ریزرویشن پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ایوان میں گجر رہنماو¿ں کی تعداد نو سے گھٹ کر چھ ہوگئی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کیا معجزہ ہوا؟ بی جے پی کے شکتی راج پریہار نے اقربا پروری، بدعنوانی اور دہشت گردی کے خاتمے کی بات کی جبکہ ایل او پی دہشت گردی کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ کون صحیح ہے؟ اگر دہشت گردی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے تو پھر دفعہ 370 کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اگر دفعہ 370 ذمہ دار تھی تو اس کی منسوخی کے بعد جموں خطے میں دہشت گردی کیوں پھیلی، وہ علاقے جنہیں میرے (پچھلے) دور حکومت میں دہشت گردی سے پاک قرار دیا گیا تھا“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں ریاسی میں یاتریوں، راجوری اور دیگر مقامات پر شہریوں پر حملے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آرٹیکل 370 دہشت گردی کے لئے ذمہ دار نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی ارکان نے جل جیون مشن میں دھوکہ دہی کا مسئلہ اٹھایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدعنوانی ختم نہیں ہوئی ہے۔