نئی دہلی/ 29 نومبر
سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے سنبھل کی شاہی جامع مسجد سروے تنازعہ کے معاملے میں جمعہ کو ضلعی عدالت سے کہا کہ وہ ہائی کورٹ میں سماعت تک کوئی کارروائی نہ کرے ۔
اس کے ساتھ ہی عرضی گزار شاہی جامع مسجد کمیٹی کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے اور ریاستی حکومت کو علاقے میں امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہدایت دی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور سنجے کمار کی بنچ نے اتر پردیش کو اس علاقے میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی ہدایت دی جہاں گزشتہ روز شدید پتھرا¶ کے دوران چار مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔
بنچ نے حکم دیا کہ اگر کوئی نظر ثانی کی درخواست دائر کی جاتی ہے تو اسے تین دن کے اندر ہائی کورٹ میں سنا جائے ۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایڈوکیٹ کمشنر کی رپورٹ کی سروے رپورٹ کو سیل بند احاطہ میں رکھا جائے ۔
بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد کہا”ہم نہیں چاہتے کہ اس دوران کچھ بھی ہو…. انہیں (شاہی جامع مسجد کمیٹی) کو مناسب اقدامات کرنے دیں۔ ہم اسے زیر التوا رکھیں گے “۔
بینچ کے سامنے عرضی گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ یہ حکم (سروے کرنے کے لیے ) عوام کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ایسے 10 کیسز زیر التوا ہیں جن میں سروے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
بنچ نے کہا”ہمیں امید ہے اور یقین ہے کہ ٹرائل کورٹ کوئی کارروائی نہیں کرے گی…. ہم نے خوبیوں اور خامیوں پر کوئی رائے نہیں دی ہے “۔
بنچ نے اس معاملے کو 6 جنوری سے شروع ہونے والے ہفتے میں زیر غور لانے کی ہدایت کی۔
وکیل وشنو شنکر جین نے مدعی ہری شنکر جین اور دیگر کی طرف سے بنچ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا تھا کہ سول جج (سینئر ڈویژن) کے سامنے سماعت کی اگلی تاریخ 8 جنوری مقرر کی گئی ہے ۔
سنبھل کیس میں ہدایت دینے سے پہلے ، بنچ نے شروع میں کہا تھا کہ اسے سول جج (سینئر ڈویژن) کے 19 نومبر کو دیے گئے حکم پر کچھ اعتراضات ہیں۔
سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج سے کہا کہ ضلع انتظامیہ کو غیر جانبدار رہنا ہوگا اور علاقے میں امن برقرار رکھنا ہوگا۔
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے مدعی کو ہدایت کی کہ وہ کوئی دستاویزات داخل نہ کرے ۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ایڈووکیٹ کمشنر کی رپورٹ کو سربمہر رکھا جائے ۔
عرضی گزار کمیٹی نے ’کم وقت‘ میں آرڈر کیے گئے سروے کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے علاقے میں تشدد ہوا اور چار مظاہرین کی موت ہو گئی۔
عرضی میں ’جلد بازی‘(سروے کرنے میں) کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جس میں سروے کی اجازت دی گئی تھی اور سروے ایک دن کے اندر کیا گیا تھا۔ اچانک ایک دوسرا سروے دو دن بعد بمشکل چھ گھنٹے کے نوٹس کے ساتھ کیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس سے بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور ملک کے سیکولر اور جمہوری تانے بانے کو خطرہ ہے ۔
سروے کرنے کا حکم سول جج (سینئر ڈویژن) نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین اور دیگر کے ذریعہ دائر مقدمہ پر دیا تھا۔
مدعی کے مطابق چندوسی میں واقع شاہی جامع مسجد کو مغل بادشاہ بابر نے 1526 میں شری ہری ہر مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنایا تھا۔