سرینگر//
جموںکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقے کے اسمبلی اجلاس کے پہلے ہی روز غیر متوقع ہنگامہ آرائی ہوئی
پی ڈی پی کے رکن‘وحیدالرحمن پرہ کی جانب سے ۳۷۰کی بحالی کو لے کر اپنی آواز بلند کرنے کے ساتھ ہی ہنگامہ ہوا جس دوران پیپلز کانفرنس کے چیرمین سجاد لون اور دوسرے آزاد ممبران نے پی ڈی پی لیڈر کا ساتھ دیا۔ شوپیاں حلقے کے ایم ایل اے ویل میں آئے اور بی جے پی کے خلاف نعرے بازی کی۔
یو این آئی اردو کے نامہ نگار نے بتایا کہ جوں ہی وحید الرحمن پرہ نے دفعہ۳۷۰کی بحالی کا معاملہ اٹھایا تو بی جے پی کے سبھی ممبران اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور شور شرابہ کیا۔
شور شرابے کے بیچ سپیکر عبدالرحیم راتھر نے بی جے پی ممبران کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پرہ کی جانب سے جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ اسمبلی ریکارڈ میں درج ہی نہیں لہذا اس پر ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔
اس دوران نیشنل کانفرنس کے ایک درجن کے قریب ممبران اسمبلی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور پرہ کے خلاف جم کر نعرے بازی کی ۔
این سی ممبران کی جانب سے شور شرابہ کرنے کے بیچ پیپلز کانفرنس کے چیرمین سجاد غنی لون اور لنگیٹ کے آزاد ممبر اسمبلی خورشید احمد شیخ بھی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور وحید الرحمن پرہ کا ساتھ دیا۔
نامہ نگار نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس اور آزاد ممبران کے درمیان تلخ کلامی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔ اس بیچ شوپیاں کے آزاد ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ شبیر کلے نے سخت ہنگامہ کرتے ہوئے سپیکر کے نزدیک جانے کی کوشش کی جس پر وہاں پر تعینات عملے نے ممبر اسمبلی کو واپس کرسی پر بٹھایا ۔
شبیر کلے نے بی جے پی کے خلاف سخت نعرہ بازی کرتے ہوئے کہاکہ جموںکشمیر کی بربادی میں بی جے پی کا ہاتھ ہے ۔ کلے کی جانب سے ویل میں آنے کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس کے ممبر اسمبلی عبدالمجید لارمی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور پی ڈی پی ممبرا ن کی طرف دوڑ پڑے اس دوران ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی کیونکہ وہاں پر تعینات مارشلز نے انہیں وہاں سے فوری طورپر بھگا دیا۔
نامہ نگار نے مزید بتایا کہ ہنگامہ آرائی کے بیچ کشتواڑ کی جواں سال ممبر اسمبلی شوگن پریہار اور لنگیٹ حلقے کے ایم ایل اے خورشید احمد شیخ کے درمیان بھی دفعہ۳۷۰کی بحالی کو لے پر لفظی جنگ شروع ہوئی اور یہ سلسلہ کئی منٹوں تک ایوان میں دیکھا گیا۔
اس دوران عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی معراج ملک اور خورشید احمد شیخ کے درمیان بھی سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
اس طرح سے اسمبلی سیشن کے پہلے دن ہی یہ عیاں ہوا کہ اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے ۔