سچ تو یہ ہے کہ سیاست میں اپنی بات پر قائم رہنا کوئی آسان بات نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ اپنے گورے گورے بانکے چھورے ‘عمرعبداللہ جموں کشمیر یو ٹی میں الیکشن نہ لڑنے کی اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکے … انہوں نے الیکشن نہ لڑنے کی ایک مضبوط دلیل دی تھی… اور آج الیکشن لڑنے کی بھی مضبوط دلیل دے رہے ہیں… عمر صاحب سیاستدان ہیں‘ اس لئے انہیں اپنی بات پر قائم نہ رہنے کی سہولت حاصل ہے… ہم … ہم لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… عمر نے ہی نہیں بلکہ میڈم جی … میڈم محبوبہ جی نے بھی اسمبلی الیکشن نہ لڑنے کی بات کہی تھی… اور ابھی تک اس پر وہ قائم ہیں… میڈم جی نے حالیہ لوک سبھا الیکشن لڑا لیکن انہیں اپنے عمر صاحب کی ہی طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا … میڈم جی کاکہنا ہے کہ جموں کشمیر کی اسمبلی کے اختیارات کسی میونسپلٹی جیسے رہ گئے ہیں اور … اور اس لئے رہ گئے ہیں کیونکہ اس کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں رہا ہے… بالکل بھی نہیں رہا ہے… میڈم جی نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے… ماضی کو یاد کرتے ہوئے اُن دنوں کی اسمبلی کے اختیارات کا ذکر کیا ہے … جب جموں کشمیر ایک ریاست ہوا کرتا تھا اور اس کی اسمبلی ملک کی طاقتور ترین اسمبلیوں میں سے ایک تھی … یا یہ واحد طاقتور ترین اسمبلی تھی… لیکن اب نہیں … اب یہ میونسپلٹی کی طرح ہے‘ جس کا کام صفائی ستھرائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ میڈم جی اسمبلی کے بارے میں جو کچھ بھی کہہ رہی ہیں‘بھاری دل سے کہہ رہی ہیں… ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اپنے گورے گورے بانکے چھورے نے جب جموں کشمیر یو ٹی میں الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ لیا تھا تو… تو ان کے پاس یقینا ایک مضبوط دلیل تھی… لیکن صاحب پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اپنے عمر صاحب گاندربل سے یو ٹی کی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑ رہے ہیں… اور میڈم جی اسی میونسپلٹی جیسی اسمبلی کیلئے اپنی بیٹی‘ التجا کو الیکشن لڑوا رہی ہیں… الیکشن لڑوا ہی نہیں رہی ہیں… بلکہ چاہتی ہیں کہ ان کی جماعت کے سبھی امیدوار اس میونسپلٹی معاف کیجئے یو ٹی کی اسمبلی کیلئے چن کے آئیں … جیت کے آئیں ۔ہے نا؟