کاغذات نامزدگیوں کے داخلہ کے ساتھ ہی الیکشن کے حوالہ سے ایک اور مرحلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ اُمیدواروں کے حامی جشن بھی منارہے ہیں، نعرے بازی بھی کررہے ہیں اور دمال بھی۔ لیکن ابھی شروع ہی ہوا چاہتا ہے کہ کچھ ایک بدمزگیاں بھی دیکھنے کو ملی، غیرشائستہ اور غیر مہذبانہ طرزعمل کا بھی کچھ مشاہدہ ہوا۔ آغازنیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اُمیدواروں کے حامیوں کے درمیان پلوامہ ضلع کے ایک علاقہ میں کچھ ایسے ہی مناظرمشاہدے میں آئے، اعتراف ہے کہ متعلقہ پارٹیوں کے نامزد اُمیدوار اپنے حامیوں کو اس طرح کا طرزعمل کا مشورہ نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی غیر شائستہ حرکت کی حوصلہ افزائی کریں گے لیکن ان کے کارکن اور حامی جو بھی ہیں اپنے طور سے اس طرح کا مظاہرہ کریں، انہیں روکنے کی ذمہ داری اُمیدواروں کی ہے۔ اس طرزعمل کا مظاہرہ یہاں تک کہ ہلاکتوں کا راستہ بھی اختیار کرنے کی روایت ہند پاک کے الیکشن منظرنامہ کا حصہ ہے، کشمیر ایسی کسی بیہودگی کاحصہ نہ بن سکتا ہے اور نہ ہی متحمل۔
الیکشن میدان میں کودنے والوں کو یہ اصولی بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہار جیت اس پراسیس کا ان مٹ حصہ ہے ، لیکن بے ہودگی اور اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا جنازہ نکالنے کی کسی روایت کی بُنیاد رکھنے کی کوشش حال تو حال مستقبل کے حوالہ سے بھی سنگین مضمرات سے عبارت ہوسکتا ہے۔ کشمیرماضی میں ایسے طرزعمل سے ہوگذرا ہے، ترک موالات کا دور بھی دیکھاگیا، جماعتیوں کا غیر جماعتیوں کے گھروں سے دلہن نہ لانے کے فتوئوں کے مضمرات بھی دیکھے ہیں، شیر بکرا جھگڑوں کے نتائج بھی چشم بینا دیکھ چکی ہے،نیشنل کانفرنس کی صدارت کا تاج فاروق عبداللہ کے سر پر رکھنے کے تعلق سے شہر سرینگر کے مختلف بازاروں سے گذر رہے حامیوں کا اژدھام اوران کی طرف سے گلہ شاہ… ایسے گالیوں سے مزین نعرہ بازی اور تالیوں کی گونج پر خود فاروق صاحب کی خاموشی بھی دیکھی اور کیا کیا نہ دیکھا، جو کچھ باقی رہ گیا تھا وہ بعض سیاسی قیادت کے دعویداروں کی سرپرستی میںعسکری دورمیں چھک چکے ہیں۔
کشمیراور کشمیری عوام کو گونا گوںمسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل اور معاملات سے وہ لوگ بھی جھوج رہے ہیں جو خودکو مختلف سیاسی پارٹیوں یا ان سے وابستہ نامزد اُمیدواروں کے حامیوں سے وابستگی جتلا رہے ہیں، وہ ان اشو ز کو ایڈریس کریں تاکہ ان کا آبرومندانہ اور دیرپا حل تلاش کرنے کا کوئی راستہ ہموار ہوسکے۔ یہ ان کی اپنے لئے اور کشمیر کی بحیثیت مجموعی بہت بڑی خدمت ہوگی۔لیکن بے ہودہ نعرہ بازی، دمال اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کرنے سے کوئی ایک بھی معاملہ حل نہیں ہوگا۔ یہ طرز عمل در اصل معاشرتی فسا داور خرابی کی جڑ ہے، اس سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
اسی دوران کچھ ایسے معاملات بھی منظرپر آنا شروع ہوگئے ہیں جن معاملات کو خود الیکشن کمیشن کی طرف سے مرتب ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی تصور کیاجارہاہے۔ اگر چہ الیکشن کمیشن مسلسل دعویٰ کررہا ہے کہ اس کی معاملات اور طرزعمل پر گہری نظر ہے اور کڑی نگاہ رکھنے کے ہی تعلق سے ضروری عملہ اور مشاہدین کو بھی مقرر کررکھا ہے لیکن خلاف ورزیوں کے مرتکبین کے خلاف بہت کم کارروائی کی جارہی ہے اور اگر نوٹس لی بھی جاتی ہے تو تادیبی کارروائی کو ریڈ ٹیپ ازم یا اندھی سیاسی مصلحتوں کا مطیع بناکر طول عطا کی جارہی ہے۔
کشتواڑ حلقہ کے تعلق سے تازہ ترین دعویٰ نیشنل کانفرنس کے نامزد اُمیدوار مسٹر کچلو کی طرف سے یہ سامنے آیا ہے کہ خطے میں زیر تعمیر نئے بجلی پروجیکٹوں میں کام کرنے والے بیرون جموں وکشمیر کے مزدروں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہیں کو زبردستی الیکشن ریلیوں میںشرکت کرنے کیلئے مجبور کیاجارہاہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر وہ جلسے جلوسوں میں شریک نہیں ہوئے تو انہیں اجرتوں سے محروم کیاجائے گا۔ یہ ایک سنگین نوعیت کا الزام ہے ، کیا الیکشن کمیشن اس کانوٹس لے کرا س کی صداقت یا عدم صداقت معلوم کرنے کیلئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا کوئی راستہ اختیار کرے گا؟
غالباً یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کو منظرعام پر لایا گیا ہے۔ جوں جوں الیکشن مہم آگے کی جانب بڑھتی جائیگی معاملات سامنے آتے رہینگے۔ جموں وکشمیر میںالیکشن پراسیس کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنائے رکھنا ہر دورمیں ایک مسئلہ رہاہے۔ کیا اب کی بار بھی اسی روایت کو برقرار اور بحال رکھا جائے گا اس پر توجہ مرکو زرہیگی لیکن یہ الیکشن کمیشن، جس کاوجود آئینی ہے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری اور منصفانہ حیثیت پر کوئی حرف نہ آنے دے اور ایسا کرکے وہ کمیشن کی ماضی کی کسی روایت یا دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں اور سیاسی مصلحتوں کی معاونت کار بننے کی روش کوقصہ پارینہ کا عنوان عطاکرسکتا ہے۔
بہرحال الیکشن ماحول کو پُرامن اور باوقار بنائے رکھنے کی لازمی اور اخلاقی ذمہ داری جموںاور کشمیر نشین سیاسی جماعتوں اور ان کی لیڈر شپ کی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بعض مخصوص سیاسی فکر اور ذہنیت کے حامل سیاستدان، جو ماضی میں مختلف وزارتی عہدوں پر بھی متمکن رہ چکے ہیں ، دانستہ او رشعوری طور سے اپنے مخصوص سیاسی نریٹو اور اُس نریٹوسے منسلک کردار وعمل اور طرزکے حوالہ سے سیاسی ماحول کو پراگندہ ہی نہیں کرنااور دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ بے ہودہ اور بے وقوفانہ تبصرے اور ردعمل کو بھی زبان دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جموںنشین ایک ایسے ہی سیاست کار نے عمر عبداللہ کے اب الیکشن لڑنے کے فیصلے کو یوٹرن بھی قرار دیا اور اپنی دانست میںحیرانی کا بھی اظہار کیا ہے۔ کیا عمرعبداللہ کو الیکشن میدان میں اُترنے کیلئے ان جیسے سیاستدان کی پیشگی اجازت درکار تھی یا آشیرواد؟
کشمیرکے ہی حوالہ سے حالیہ برسوں کے دوران جس ایکوسسٹم کے خلاف سخت ترین اقدامات کی باتیں کی جاتی رہی ہیں اور اس سسٹم کے خاتمے کیلئے اب تک انہی جیسے سیاستدانوں کی طرف سے زیروٹالرنس کے دعویٰ بھی سامنے آتے رہے ہیں اُس مخصوص سسٹم سے وابستہ کچھ لوگوں کا بحیثیت آزاد اُمیدواروں کے الیکشن میدان میں اُترنے پر انہیں کوئی حیرت نہیں اور نہ ہی اس مخصوص یوٹرن پر انہیں کوئی اعتراض ہے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ کیایہ ان دس آزاد اُمیدواروں میںشامل ہیں جن کے جیتنے کی صورت میں گلے لگانے یا گلے کاہار بنائے جانے کی باتیں اِدھر اُدھر سے سنائی دے رہی ہے۔
پھر عین الیکشن کے موقع پر امریکی سفارت کاروں کا وادی کے دورے پر واردِ ہونا اور مختلف سیاسی نظریات اور سیاسی مکاتب فکروں سے وابستگان کے ساتھ طویل ملاقاتیں کچھ سوالوں اور کچھ خدشات کو بھی جنم دے رہی ہیں۔