سرینگر//
جموںکشمیر حکومت نے ہفتے کے روز ملی ٹنسی کی مالی مدد کیلئے منشیات فروخت کرنے کے الزام میں۵پولیس اہلکاروں سمیت۶سرکاری ملازموں کو نوکریوں سے بر طرف کر دیا۔
مذکورہ ملازموں کو آئین ہند کے دفعہ۳۱۱(۲)(سی)کے تحت برطرف کر دیا گیا جو بغیر انکوائری کے ایک سرکاری ملازم کو برطرف کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ برطرف شدہ ملازموں کی سرگرمیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نوٹس میں آئی تھیں، انہیں ریاست کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا جو دہشت گرد سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے ۔
بیان میں بر طرف شدہ ملازموں کی شناخت سیف الدین (سلیکشن گریڈ کانسٹیبل) ولد قاسم الدین ساکن شنگانی بھلیسہ حال جاوید نگر بالی چرانہ توی جموں،فاروق احمد شیخ (سلیکشن گریڈ کانسٹیبل) ولد عبد العزیز شیخ ساکن ابکوٹی ٹنگڈار کپوراہ، ارشاد احمد چالکو ولد سیف الدین چالکو ساکن سلی کوٹ اوڑی بارہمولہ، خالد حسین شاہ (کانسٹیبل) ساکن کپوارہ، ، رحمت شاہ (کانسٹیبل) ساکن کپوارہ، ناظم الدین (ٹیچر) ولد قیوم الدین ساکن کرنی حویلی پونچھ کے طور پر کی گئی ہے ۔
سرکاری بیان میں کہا گیا’’سیف الدین ایک بدنام زمانہ منشیات فروش، عادی مجرم اور نارکو ٹیرر فنڈنگ کی تقسیم کاری کا ماسٹر مائنڈ تھا‘‘۔انہوں نے کہا’’وہ ایک حوصلہ مند اور پر عزم منشیات فروش ہونے کے ساتھ ساتھ کالعدم دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کا بالائی زمین ورکر تھا اور اس نے ڈرگ چینلز قائم کی تھیں جن کو ملک دشمن ایجنسیاں/ عناصر ہتھیار، منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کی در اندازی کو سہولیت فراہم کرنے کے لئے استعمال کر رہے تھے ‘‘۔
بیان کے مطابق’’فاروق احمد شیخ نے دوسرے دو ملازموں خالد حسین شاہ اور رحمت شاہ جو دونوں محکمہ پولیس میں کانسٹیبل ہیں، سر حد پار سے پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے اسمگلروں سے منشیات کی بھاری کھیپ حاصل کی ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ فاروق شیخ، خالد شاہ اور رحمت شاہ کو پاکستان مقیم دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات تھے جو لائن آف کنٹرول سے منشیات، ہتھیار اور پیسوں کی اسمگل کرنے میں ملوث ہیں۔
سرکاری ترجمان نے بتایا’’وہ پاکستان سے منشیات اسمگل کرتے تھے اور ان منیشات کی غیر قانونی تجارت سے حاصل ہونے والی رقم کو بد امنی پھیلانے کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا‘‘۔انہوں نے کہا’’وہ منشیات فروشوں اور کالعدم دہشت گرد تنظیم کے بالائی زمین ورکروں کے ساتھ رابطے میں تھے اور وادی کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کیلئے فنڈنگ کا بندوبست کرنے کے طریقہ کار کا حصہ تھے ‘‘۔
سرکاری بیان کے مطابق ارشاد چالکو کو بھی دہشت گرد ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے تھے اور اس نے بھی کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ بطور بالائی زمین ورکر کام کرنا شروع کیاتھا۔انہوں نے کہا’’وہ دہشت گرد تنظیموں کو در اندازی کے دوران اور وادی کشمیر کے اندرونی علاقوں میں ان کی غیر قانونی اسلحہ و گولہ کی نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لئے مدد فراہم کرتا تھا‘‘۔
بیان کے مطابق سکول ٹیچر ناظم الدین لائن آف کنٹرول کے اُس پار منشیات کی بڑی کھیپ حاصل کرکے اس کو منشیات فروشوں، یہاں تک پنجاب میں، تک پہنچاتا تھا۔
بیا ن میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی اور اس کے حامیوں کے خلاف اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعادہ کیا ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے۔
لیفٹیننٹ گورنر نے شہریوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری صفوں کے اندر بدعنوانی اور دہشت گردی کے روابط کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ فیصلہ کن کارروائی دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور ان کی مالی لائف لائنکو کاٹنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ نیٹ ورک کے اندر کسی بھی اضافی روابط اور معاونین کو بے نقاب کرنے کیلئے تحقیقات جاری رہیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی اور اطلاع دینے میں عوام سے نگرانی اور تعاون بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر میں گذشتہ چار برسوں کے دوران۷۰سرکاری ملازموں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔