نئی دہلی//
وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کو کہا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی اپنے آخری مرحلے میں ہے اور باقی ماندہ دہشت گرد نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔
راجیہ سبھا میں صدر کے خطے پر پوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ ۱۰سالوں میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
وزیرعظم نے کہا کہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی ختم ہو رہی ہے اور جموں و کشمیر کے شہری اس لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔
مودی نے کہا کہ جموں کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف ہماری لڑائی ایک طرح سے آخری مرحلے میں ہے۔ ہم وہاں باقی رہ جانے والے دہشت گرد نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران شٹ ڈاؤن، ہڑتالیں، دہشت گردی کی دھمکیاں اور بم دھماکے کرنے کی کوششیں جمہوریت پر سیاہ سایہ کی طرح رہی ہیں۔ان کاکہنا تھا’’اس بار عوام نے آئین پر غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ کیا ہے۔ میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے رائے دہندگان کو مبارکباد دیتا ہوں‘‘۔
مودی نے یہ بھی کہا کہ سیاحتی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور نئے ریکارڈ بنا رہی ہیں اور سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جموں و کشمیر میں حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ کے اعداد و شمار گزشتہ چار دہائیوں کے ریکارڈ توڑنے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا’’وہ ہندوستان کے آئین، ہندوستان کی جمہوریت، الیکشن کمیشن آف انڈیا کو قبول کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔
اگست۲۰۱۹ میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے آئین کی دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کردیا تھا جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا (اب لداخ اور جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے)۔
وزیر اعظم نے خطاب میں کانگریس کو آئین کی سب سے بڑی مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پارٹی کی ذہنیت درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے خلاف بھی ہے ۔
مودی نے کہا کہ ۱۹۷۷کے عام انتخابات ملک کی تاریخ کا پہلا انتخاب تھا جو آئین کے تحفظ کے مسائل پر لڑا گیا تھا۔ حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات اگر آئین کے تحفظ کے معاملے پر ہوئے تو اہل وطن نے ہمیں اس کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ۱۹۷۷میں جمہوریت کے تحفظ اور آئین کے تحفظ کے لیے ووٹنگ کی گئی تھی۔ اُس وقت ملک کی ‘‘عقلمندی’’ نے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو اکھاڑ پھینکا تھا۔’’ اگر یہ الیکشن آئین کی حفاظت کے لیے تھا تو اہل وطن نے اس کے لیے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ۔ ایمرجنسی لگا کر آئین پر بلڈوزر چلایاگیا تھا۔ جمہوریت کی دھجیاں اڑادی گئی تھیں اور اب ایوان کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ یہ الیکشن آئین کے تحفظ کے لیے تھا‘‘۔
مودی نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا تھا۔ لوک سبھا کو سات سال چلایاگیاتھا۔ وہ کون سا آئین تھا جس کی بنیاد پر کانگریس اقتدار کے مزے لیتی رہی اور عوام کے حقوق کو پامال کرتی رہی؟ آئین کی روح کو پامال کرنے کا کام کیاتھا۔ آئین میں ترمیم کی گئی اور اسے’منی آئین‘کہا جاتا تھا۔ان کاکہنا تھا’’ وزیراعظم کے عہدے کے وقار کو پامال کیا گیا تھا۔ کون سا آئین ہے جو کسی رکن پارلیمنٹ کو کابینہ کے فیصلے کو سرعام پھاڑ دینے کا حق دیتا ہے ‘‘؟
وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں صدرجمہوریہ، نائب صدر اور وزیراعظم کا پروٹوکول ہے ۔ انہوں نے گاندھی خاندان کا نام لیے بغیرکہا کہ ایک خاندان نے اس کا غلط استعمال کیا ہے ۔ کانگریس نے تو ’اندرا از انڈیا‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ کانگریس آئین کی سب سے بڑی مخالف ہے ۔ ان کو دو سو تین سو سال پرانی باتیں کرنے کا حق ہے لیکن ایمرجنسی کی بات نہیں کرنی ہے ۔ ان کے ساتھ بیٹھنے والے بھی ایمرجنسی کا شکار ہوئے ۔ ان کی مجبوریاں ہوں گی۔ لیکن اگر آئین کے تحفظ کی بات ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔
مودی نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ عام آدمی کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ جے پرکاش نارائن جی کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جیل سے باہر آنے کے بعد بھی اس سے نجات حاصل نہیں کرسکے ۔ کانگریس اقلیتوں کے ساتھ رہنے کی بات کرتی ہے لیکن میرٹھ میں ایمرجنسی کے دوران کیا ہوا تھا؟ اس کو کوئی اٹھانے والا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہی لوگ ہاتھ میں آئین کی کاپی لے کر اپنے سیاہ کارناموں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب کانگریس کا طفیلی دور شروع ہو چکا ہے ۔ اب یہ کسی کے سہارے اور کندھے پر بیٹھ کر کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اتحادیوں کے ووٹ حاصل کر کے پھل پھول رہی ہے ۔ کانگریس کے پرجیوی ہونی کی وجہ ان کے اپنے اعمال ہیں۔ ملک کو گمراہ کرکے اپنے کارناموں کو چھپانے کی عادت ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس کی ذہنیت دلت اور قبائلی مخالف بھی ہے ۔ اس عام انتخابات میں کانگریس کی شکست کا ٹھیکرا جن پر پھوٹنا تھا، ان کو بچانے کیلئے ملیکارجن کھڑگے ڈھال بن کرکھڑے ہوگئے ۔ یہ کانگریس کی روایت ہے ۔ کانگریس ہمیشہ دلتوں کو آگے کرتی رہی ہے ۔ ابھی ایک دلت کو لوک سبھا اسپیکر کے انتخاب کے لیے بھی کھڑا کردیا جب کہ شکست یقینی تھی۔ان کاکہنا تھا’’ کانگریس نے سابق صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کی بھی مخالفت کی تھی اور سال۲۰۱۷میں مسٹر کووند کے خلاف محترمہ میرا کمار کو صدارتی انتخاب میں اتاردیا تھا۔ کانگریس نے ملک کی پہلی قبائلی خاتون صدر کی بھی مخالفت کی ہے ۔‘‘