قلع قمع کرنے کیلئے ایڈمنسٹریشن کا اعلان جہاد
کورپشن… ایل جی ایڈمنسٹریشن کا وعدہ، عہد اور اعلان کہ زیروٹالرنس، گذرے دو سال کے دوران اس لعنت اور بدعت کا قلع قمع کرنے کی سمت میں متعدد اقدامات اُٹھائے گئے ہیں،کئی ایک کے خلاف تادیبی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں جبکہ انٹی کورپشن بیورو کے روبرو بہت سارے بدعنوانیوں اور کورپشن کے معاملات زیر تفتیش ہیں۔
کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار کے حوالہ سے عالمی سطح پر کس ملک کا درجہ کیا ہے اور اس حوالہ سے ہندوستان کا مقام کیا ہے قطع نظر اُس کے جہاں تک جموںوکشمیرکا تعلق ہے اس کا شمار ابھی حالیہ ایام تک ہندوستان کی دوسری بڑی کورپٹ ریاست کے طورپر کیا جاتا تھا۔ اس رتبہ اور درجہ کی تصدیق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی عالمی ادارہ کے ریکارڈ پر موجودہے۔
جموںوکشمیر میںکورپشن کی تاریخ آج کی نہیں ہے، بلکہ اس لعنت کا سنگ بُنیاد ۱۹۴۷ء میں آزادی کے فوراً بعد مخصوص سیاسی نظریات اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ڈالی گئی۔ا س تعلق سے یہ بات ہمارے اسلاف کی زبان زدہ تھی کہ جب وقت کے ایک بڑے سیاستدان نے اپنے گھر کی الماری کسی کام کی وجہ سے کھولی تو اس کو وقت کی کرنسی نوٹوں سے اٹا پڑا پایا۔ وہ کرنسی کا انبار دیکھ کر اپنا تواز ن کھوبیٹھا، وہ چیختا چلاتا سڑک پر آیا اور چلاتا رہا کہ ہمارے گھر میںنوٹوں کی بارش ہوئی۔ جانکارحلقوں کا اُس وقت دعویٰ تھا کہ ان کرنسی نوٹوں کا مجموعی حجم پانچ اور چھ لاکھ کے درمیان تھا۔یہ سیاستدان بعد میں جموںوکشمیر کا دوسرا وزیراعظم بنا جس نے اپنے خاندان کے ساتھ کورپشن کے سمندر پار کرلئے۔
اس مخصوص پس منظرمیں کہاجاسکتا ہے کہ جموں وکشمیر میں کورپشن حقیقت میں سیاست کی مصلحتوں کے بطن کی ہی پیداوار ہے جو وقت کے گذرتے اعلیٰ سطح پر سیاسی اُفق کا حصہ بنا، پھر ایڈمنسٹریشن کے مختلف کل پرزوں میں سرائیت کرتا گیا، عوامی سطح پر بھی اس لعنت نے اپنے بال وپر پھیلادیئے، کاروبار، تجارت اور ٹھیکوں کی الاٹمنٹ ، ایڈمنسٹریشن میں تقرریوں اور تبادلوں نے کورپشن کی صورت میں انڈسٹری کا درجہ حاصل کیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر شعبہ زندگی اس کی لپیٹ میں آتار ہا۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس لعنت اور وبا ء نے معاشرتی اقدار اور ارفع و اعلیٰ اصلوں اور منفرد تشخص تک کو تہہ وبالا کرکے رکھدیا۔ معاشرے میں اب معزز وہی ہے جو کورپشن ، بدعنوان طریقہ کار اور استحصال کے زینے طے کرتا ہوا معاشی ترقی کی منزلیں پھلانگتا رہا۔ بہرحا ل اس بات کو آج کی تاریخ میں محسوس کیا جارہاہے کہ اگر ۷۵؍ سال قبل سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر جموں وکشمیرمیںکورپشن اور بدعنوان طریقہ کار کو متعارف کرکے اس کی سرپرستی نہ کی گئی ہوتی تو آ ج کشمیر کا لینڈ سکیپ وہ نہ ہوتا جو پیش نظر ہے۔
لیکن اب منظرنامہ بدلتا جارہاہے ۔ کورپشن اور بدعنوان انداز فکر اور طرزعمل کے خلاف جہد مسلسل کی ضرورت اور اہمیت کوناگزیر سمجھا جارہاہے۔ چنانچہ اینٹی کورپشن بیورو کے سوختہ اور بوسیدہ دانتوں پر نئی پالش کا ملمع چڑھاکر انہیں کاٹ کے قابل بنایاگیا، بیوروکو فعال اور متحرک بناکر کورپشن کا قلع قمع کرنے، کورپشین کی ادائیگی اور وصولی کے ہر باریک سے باریک طرزعمل کا قلع قمع کرنے اور مرتشی اور راشی ذہنیت کے حامل افراد کے خلاف شکنجہ کسنے کا عمل ہاتھ میں لیاگیا ہے جس کے کچھ مثبت اور حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
البتہ کورپشن کے خلاف اس جہد مسلسل کو بھرپور قوت اور سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانے اور کورپشن سے سیاست، ایڈمنسٹریشن اور معاشرہ کو صاف وپاک کرکے انہیں ایک صفحہ پر لانے کا عمل جاری ہے۔ یہ کورپشن اور بدعنوان طریقہ کا ہی نتیجہ ہے کہ ترسیل انصاف کے راستے بھی منفی طور سے اثر انداز ہورہے ہیں، چنانچہ اس حوالہ سے بھی کورپشن کے خلاف جدوجہد اور عملی اقدامات ناگزیر بن چکے ہیں۔
مکمل خاتمہ کرنے میں وقت درکار ہے، کیونکہ جو طریقہ کار ایک عرصہ سے سسٹم کے ہر سطح پر سرائیت کرکے ایک طاقتور درخت کی مانند جڑیں مستحکم کرچکاہے اس کے ہر پرزہ کو ناکارہ بناکر اُکھاڈ پھینکنے میں بھی کچھ وقت درکار ہے ، جو واجبی ہے ۔ لیکن صرف حکومت اکیلے اس لعنت کا قلع قمع نہیں کرسکے گی، لوگوں کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنا کردار اداکریں، اشتراک عمل کا جذبہ اپنے اندر اُجاگر کریں اور جموں وکشمیر کی معاشرتی اقدار کو اس عظمت رفتہ سے واپس ہم کنار کریں جو کبھی ماضی میں اس کا خاصہ رہاہے۔
کورپشن کی ضمن میں مسلم معاشرے اور مذہبی عقیدے سے دیکھا جائے تو شریعت کی رئو سے مرتشی اور راشی دونوں گناہگار اور مجرم قرار پاتے ہیں۔دوسرے مذاہب اور عقیدوں سے وابستہ لوگ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سسٹم نہ صرف معاشرے میںگندگی اور غلاظت پھیلانے کا موجب بنتا ہے بلکہ اقدار کی تنزلی اور انحطاط کے عمل سے ہم کنار کرنے کیلئے بطور زینہ کا روپ بھی دھارن کرلیتا ہے۔ ترسیل انصاف کی راہ میں بھی یہ لعنت بڑے پیمانے پر حائل ہے پھر مجموعی ردعمل میں انفرادی قوت کی ترقی اور نشوونما کی راہ میں بھی رخنہ انداز ہوکر ریاست کی مجموعی ترقی کا بھی راستہ روکنے میںمعاون کا کردار بن جاتاہے۔
بدعنوان طرزعمل سے وابستہ ان باریکوں کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے پھر سمجھ کر اس بدعت کے خلاف سینہ سپر ہوکر صف آرا ہونا ناگزیر بن جاتاہے۔ لیکن یہ ایک تلخ سچ ہے کہ کورپشن کے خاف جہاد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک نہ سیاستدانوں کا محاسبہ کیاجائے۔ بادی النظرمیں کشمیر نشین اور جموں نشین سیاستدانوں کی اکثریت تجارتی اور کاروباری نہیں ہے لیکن شان وشوکت نرالے ہیں۔ آمدن کے ان کے وسائل اور ذرائع بظاہر پردوں کی اوٹ میں ہیں۔ اس طرف بھی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تعلق سے سابق وزیرخزانہ حسیب درابو اور ایڈمنسٹریشن کے ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر نوین چودھری سے وابستہ درجن بھر ٹھکانوں پر تفتیشی ایجنسیوں کے چھاپے ، پوچھ گچھ اور تحقیقات اس امر کو واضح کررہاہے کہ کورپشن کی گہری جڑیں سیاستدانوں اور انتظامیہ دونوں تک وسعت اختیار کرچکی ہیں۔