کم بخت یہ کرسی بھی بڑی کمینی چیز ہے… نہیں صاحب وہ کرسی نہیں ہے‘ جس پر آپ اور ہم گھرمیں بیٹھتے ہیں… وہ کرسی تو بڑی شریف ہے اور آرام دہ بھی… ہم اِس کرسی کی بات نہیں کررہے ہیں… بلکہ ہم اُس کرسی کی بات کررہے ہیں جس تک پہنچنے کیلئے ‘ جس پر بیٹھنے کیلئے انسان کے خون کا رنگ لال سے سفید ہو جاتا ہے … اور جب خون کا رنگ بدلتا ہے… بدل جاتا ہے تو… تو پھر نظریں بھی بدل جاتی ہیں… سوچنے کا رنگ اور ڈھنگ بھی بدل جاتا ہے… ہم یہ بات پہلے سے جانتے تھے … لیکن…صاحب اب ہمارا اس بات پر یقین پختہ ہو گیا ہے… ہمارا اس بات پر سے بھروسہ مزید بڑھ گیا ہے…پی ڈی پی اور این سی میں جو کچھ بھی اِس وقت ہو رہا ہے… اننت ناگ کی لوک سبھا سیٹ کو لے کر ہو رہا ہے… اسے دیکھ کر ہم ایک بار پھر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ… کہ کم بخت یہ کرسی سچ میں کمینی چیز ہے… اگرا یسا نہیں ہو تا تو…تو ہم وہ سب نہیں دیکھتے جو ہم دیکھ رہے ہیں… عمر عبداللہ کھل کر اپنے اصلی رنگ روپ میں سامنے آگئے ہیں… سیاستدان والے روپ میں … ایسا روپ جس کو انہوں نے کچھ برسوں سے پس پشت ڈال دیا تھا‘ کہیں کسی تہہ خانے میں چھپا رکھا تھا …اس لئے چھپا رکھا تھا کیونکہ کشمیر میں کوئی الیکشن نہیں ہو رہا تھا… کسی کو کوئی کرسی نہیں ملنے والی تھی… لیکن اب جبکہ الیکشن ہونے والے ہیں… کسی کو کرسی ملنے والی ہے تو… تو عمر عبداللہ اپنے اصلی رنگ روپ میں جلوہ گرہوگئے ہیں… نہیں صاحب ہم پی ڈی پی کو کوئی کلین چٹ نہیں دے رہے ہیں… قوم نے پی ڈی پی کا بھی اصلی رنگ دکھ لیا ہے …۲۰۱۴ میں دیکھ لیا … جب اس نے بھی کرسی کیلئے وہ سب کچھ کیا جس کی اس سے توقع نہیں تھی…بالکل بھی نہیں تھی‘ جس کا اس نے قوم سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا… بالکل بھی نہیں کیا تھا…لیکن کیا کیجئے گا اس کرسی کا کہ… کہ اسے دیکھتے ہی پی ڈی پی کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور… اور اس نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا… اب کی بار اگر کرسی کاسایہ دیکھ کر عمرعبداللہ کے منہ سے رال ٹپکنے لگی ہے تو…تو صاحب خطا کسی کی نہیں ہے… سوائے اس کرسی کی جو بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہے… پی ڈی پی اور این سی تو بھائی بھائی بھی نہیں ہیں… اس لئے اگر انہوں نے ایک دوسرے کو‘ گپکار الائنس کو بائی بائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو… تو ایسا ہی سہی۔ ہے نا؟