وہی ہوا جس کا ڈر تھا، نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کا ہاتھ جھڑک کرنہ صرف گپکار الائنس کو تقریباً دفن کردیا بلکہ کشمیرکی سیاسی اُفق پر ایک اور اختلافی چپٹر کی بنیاد رکھی۔ کشمیرکا ووٹ تو پہلے سے ہی تقسیم درتقسیم تھا سوا ب اس ایک اور فیصلہ کے نتیجہ میں اس تقسیم کو استحکام کی ایک اور سیڑھی عطاہوئی۔
کیا نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ یا بحیثیت مجموعی پارٹی کا یہ فیصلہ کسی سیاسی دانشمندی سے عبارت ہے یا محض سیاسی جاہلیت کا کشمیرکے حساس نوعیت کے معاملات کے تناظرمیں ایک اور اضافہ؟ یہ وقت ہی بتادے گا البتہ سنجید ہ فکر عوامی حلقے اگر چہ منقسم ہیں اور ملاجلا خیالات رکھتے ہیں لیکن یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ عمرعبداللہ کا یہ استدلال کہ اگر کانگریس کی سونیا گاندھی یا اُس پارٹی کا کوئی اور لیڈر اننت ناگ حلقے سے چنائو لڑنے کی خواہش کا اظہار کرے تو ان کی پارٹی اپنی دعویداری سے دستبردار ہوگی لیکن پی ڈی پی کے حق میں اس لئے نہیں کہ یہ پارٹی گذشتہ الیکشن میں حاصل ووٹوں کی شرح تناسب کے اعتبار سے تیسرے نمبر پررہی ہے کو ناعاقبت اندیشانہ اور سیاسی جاہلیت کے مترادف قراردیاجارہاہے۔
جمہوریت کا تقاضہ اور جمہوریت کے آداب اور معیارات کیا ہیں اوران کے تناظرمیں جب سیاسی فضا بے حد مکدر ہو اور زمینی سطح پر بھی حالات گھٹن زدہ ہوں تو سیاسی انداز فکر اور سیاسی اپروچ کے انداز اور طریقے بدل جاتے ہیں یا ان میں بدلائولاکر لچک کا رویہ اختیار کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔ کشمیرکے مخصوص سیاسی اور زمینی حقائق کے تناظرمیں جب کشمیرنشین پرانی اور نئی سیاسی پارٹیوں کے اندازفکر، اپروچ، رویوں، طریقہ کار، اہداف اور دعوئوں کا گہرائی سے تجزیہ کیاجاتا ہے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا کوئی مخصوص چہرہ نہیں، یہ دودھ کی بھی دھلی نہیں، عوام کے وسیع تر مفادات کا تحفظ کبھی یقینی بنایا ہو یا حقوق چاہئے معاشی ہوں یا سیاسی ہوں یا آئینی کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے انہوںنے تاریخ کے کسی مرحلہ پر کوئی مثبت کردار اداکیا ہو یا کوئی مثالی کارنامہ انجام دیا ہو عصری تاریخ میں اس کا کوئی تذکرہ مطالعہ میں نہیں۔بخشی مرحوم سے لے کر محبوبہ مفتی کی قیادت میںآخری حکومت تک … ایک ہی کہانی پڑھنے کو ملتی رہی۔
سونیا گاندھی یا ان کے پریوار کے کسی فرد کے لئے حلقہ مخصوص بھی کردیا جائے اور وہ عوام کا منڈیٹ حاصل کرنے میںکامیاب بھی ہوجائیں تو سوال یہ ہے کہ منتخب ہونے کے بعد کیا وہ حلقے کے ووٹروں کی نمائندگی کرکے ان کی سیاسی، آئینی ،معاشی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کی سمت میں اپنا کوئی کرداراداکریں گے، ہر گز نہیں، نیشنل کانفرنس کا فیصلہ پی ڈی پی کو نہیں کانگریس کیلئے دستیاب ہے جہاں سیاسی جاہلیت اور ہٹ دھرمی کا واضح عکاس ہے وہیں کانگریس کیلئے پیشکش کا اخلاقی اور سیاسی تناظرمیں کوئی مدلل جواز نہیں بلکہ یہ پیشکش چاپلوسی،سیاسی خوشامدی اور سب سے بڑھ کر ۷۵؍ سالہ پارٹی کی دم چھلہ ہی بنے رہنے کی سیاست سے عبارت ہے۔
پی ڈی پی کیلئے بحیثیت انڈیا بلاک کی اکائی کے حلقہ چھوڑ کر ایک طرح سے گھر کی ہی بات رہتی لیکن معلوم نہیں کہ عمر عبداللہ کیوں غصے سے لال پیلے ہوئے، مانا کہ بلکہ تلخ سچ بھی یہی ہے کہ خود محبوبہ مفتی ہی نہیں ان کی پارٹی کے کئی لیڈر نیشنل کانفرنس کو مختلف معاملات کے حوالہ سے اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور ابھی حالیہ ایام میں محبوبہ کی بیٹی اور مشیر خاص نے ایک الیکشن کے حوالہ سے بھی فاروق عبداللہ کے خلاف کچھ ریمارکس کئے لیکن نیشنل کانفرنس بھی وقتاً فوقتاً پی ڈی پی باالخصوص ماضی میں مرحوم مفتی محمدسعید کو غلیظ گالیوں کے ساتھ نشانہ بناتی رہی ہے جبکہ محبوبہ کو مسلسل اس بات پر نشانہ بنایا جاتارہا کہ اس نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر کشمیر کی بقول ان کے تباہی کا راستہ ہموار کیا۔
سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس طرح کی نوک جونک ، شعلہ بیانی اور الزامات کا تبادلہ کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست کا کوئی مخصوص چہرہ بھی نہیں، آج کا سیاسی دوست آنے والے کل کا دُشمن اور کل تک کا سیاسی دُشمن آج کا سیاسی دوست بن جاتا ہے۔
ان دونوں پارٹیوں کے تعلق سے ورق گرانی کریں تو بات بہت دور تک جائے گی، مختصر یہ کہ اگر پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی محمدسعید نے بی جے پی کے خلاف عوام سے منڈیٹ طلب کرکے حاصل بھی کیا تواُسی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر عوام کے منڈیٹ کو کیا پامال نہیں کیا؟ پھر اپنے اس فیصلے کو نارتھ اور سائوتھ بلاکوں کا ملن قراردے کر اسے اپنا وژن اور مشن کے طور پیش کرتے رہے جو صریح ناکام رہا۔آج کی تاریخ میں محبوبہ مفتی اپنے سیاسی حریف عمرعبداللہ کے بیان پر ردعمل میں جب اس دعویٰ کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ’جو کام بی جے پی نہ کرسکی وہ آج این سی نے کیا، میں بادی النظرمیں کوئی خاص وزن یا معقول استدلال موجود نہیں۔
دونوں پارٹیاں اپنے سیاسی نظریات کے بظاہر تحفظ یا ترویج کی خاطر بی جے پی کا نام لے کر ایک دوسرے کو لتاڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں جبکہ دونوں ماضی میں اقتدار میں شرکت کے حوالہ سے بی جے پی کی اکائیاں رہی ہیں۔ نیشنل کانفرنس جموں میونسپلٹی لداخ ہل کونسل اور مرکز میں آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت میں ساتھی رہی ہیں۔ بی جے پی کے تئیں دونوں پارٹیوں کی یہ پبلک پوسچرنگ محض دکھاوا ہے جو اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ بی جے پی سیاسی سطح پر کوئی اچھوت نہیں !
آنے والے الیکشن میں لوگوں کا منڈیٹ کس پارٹی کے حق اور کس کے خلاف ہوگا یہ معلوم تو نہیں البتہ سنجیدہ اور حساس عوامی حلقوں کی یہ خواہش گذشتہ کچھ برسوں سے مسلسل سامنے آتی رہی کہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیاں آپس میں مل بیٹھ کر کشمیر اور کشمیری عوام کے معاملات کو ترجیح دے کر آپس میں کسی اتحاد پر متفق ہوجائیں اور کشمیر مخصوص نریٹو کو وضع کریں لیکن لوگوں کی یہ ادنیٰ سی خواہش ہر سیاسی پارٹی اپنے پائوں تلے روندتی آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ ہر ایک اپنے لئے اقتدار کے حصول کیلئے تڑپ رہی ہے۔