گذشتہ دو برسوں کے دوران اب تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی ریکارڈ تعداد جموںوکشمیر کی سیاحت پر آئی ہے جبکہ توقع کی جارہی ہے یہ تعداد اس سال کے آخیر تک ۲؍ کروڑ تک پہنچ جائیگی۔
پارلیمنٹ میں جموںوکشمیر کی ترقی اور پیش رفت کے حوالہ سے جو مفصل رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاحت کے شعبے کے بارے میں بھی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے گذشتہ مالی سال ۲۰۲۲ء کے دوران ایک کروڑ ۸۸؍ لاکھ سیاح واردِ جموںوکشمیر ہوئے جبکہ اس سال اکتوبر کے آخیر تک یہ تعداد ایک کروڑ ۸۵؍ لاکھ تک رہی۔ سیاحتی شعبے کی ترقی کے تعلق سے پارلیمنٹ کو کئی متوقع اور اُٹھائے جاتے رہے اقدامات سے بھی آگاہ کیاگیاہے۔
بہرحال جو سیاح جموںوکشمیر وارد ہوتے رہے ہیں ان میں وہ یاتری بھی شامل ہیں جو شری امر ناتھ اور ویشنو دیوی کی یاترا پر آتے رہے ہیں۔ سال ۲۲ء کے دوران۱ ۹ لاکھ ۲۲ ہزار یاتریوں نے ویشنو دیوی پر حاضری دی جبکہ اس سال ستمبر کے آخیر تک ۷۳؍لاکھ کے قریب ویشنو دیوی پر حاضری دے کر چلے گئے۔
لو گ چاہئے یاتریوں کی صورت میں آجائیں یا سیاحوں کی صورت میں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ فرق یہ ہے کہ جموں وکشمیر کی سیاحت پر لوگ آرہے ہیں اور ان کی آمد میں گذشتہ چند برسوں کے دوران متواتر اضافہ ہورہا ہے۔ یاتریوں اور سیاحوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولیات دستیاب رکھنے، ان کے سفر اور عبورو مرور کو آرام دہ بنانے، ان کی ضرورتوں کے مطابق قیام وطعام کی فراہمی کو یقینی بنانے جموںوکشمیر میں اپنے قیام کے دوران سیاح ہویا یاتری اپنے آبائی گھر اور لواحقین کے ساتھ برابر رابطہ میں رہے اُس کیلئے بہتر اور قابل اعتماد مواصلاتی سہولیات بہم رکھنے کی سمت میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
کیونکہ خود جموںوکشمیر کے رہائشی سیاحوں اور یاتریوں کیلئے وقف یا دستیاب سہولیات کے تعلق سے مطمئن نہیں تو وہ لوگ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر روادِ کشمیر ہوں یا واردِ جموں اور اپنی عمر بھر کی پونجی اپنے اس سفر پر خرچ کرنے پر تیار ہوں کم سے کم یہ تو ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ جموںوکشمیر کا سفر یاسیاحت ان کیلئے ہراعتبار سے آرام دہ رہے ساتھ ہی یہ بھی وہ جموںوکشمیرکے لوگوں، کاروباریوں، ٹرانسپورٹ آپریٹروں ، ریستورانوں اور ہوٹلوں ، شکارا اور ہائوس بوٹ والوں اور سیاحت سے جڑے ہر فراد اور ادارے سے حسن سلوک کی توقع رکھتے ہیں۔
حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کا کہنا ہے کہ سیاحوں اور یاتریوں کی سہولیات کیلئے ہر ممکن اقدام کیاجارہاہے۔ لیکن جہاں تک سڑک رابطوں کو بہتر بنانے اور خستہ حال شاہرائوں کی پیوندکاری کی بجائے مستحکم مضبوط اور پائیدار بُنیادوں پر ترقی یافتہ بنانے کی طرف خصوصی توجہ درکارہے ۔ بہت سارے سیاحتی مقام ابھی بھی سڑک رابطہ کے فقدان کی وجہ سے جموںوکشمیرکے سیاحتی نقشے پر اُبھر کر نہیں آسکے ہیں جبکہ ان میں بہت سارے ایسے مقامات ہیں جو خوبصورتی اور دلکشی میں آپ ہیں لیکن سیاح ملکی ہو یا غیر ملکی ایسے مقامات کی طرف رُخ کرنے سے کتراتا ہے البتہ کچھ سیاح جو مہم جو طبیعت کے حامل ہیں وہ ان مقامات کی طر ف رُخ ضرور کرتے ہیں۔
سڑک کے راستے پر سیاحوں کے سفر کو آرام دہ بنانے کیلئے سڑک پر میکڈیم بچھانا ہی کافی نہیں بلکہ میکڈیم کی مضبوطی اور پائیداری کے ساتھ ساتھ شاہراہ کے مختلف پڑائوں پر واش روم، کیفڑیا اور لمبی مسافت والی شاہراہوں پر سستانے کیلئے مناسب جگہوں کی نشاندہی اور ان جگہوں پر ادارتی ڈھانچوں کی تعمیر سیاحت کی بتدریج ترقی کیلئے ناگزیر بن چکی ہے۔
مغل حکمرانوں نے کشمیر کو خوبصورت باغوں کی صورت میں کئی باغات ہارون، شالیمار، نشاط ،چشمہ شاہی بشمول پری محل دئے، مقامی لوگ بھی ان باغات کی سیر کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد بھی محذوظ ہورہی ہے۔ لیکن ان باغوں کا رکھ رکھائو ہر گذرتے دن کے ساتھ تنزل اور انحطاط کا شکار ہورہاہے۔ حکومت کے متعلقہ ادارے ان باغات میںداخلہ کیلئے اپنی تمام تر توجہ انٹری فیس کی صورت میں سرمایہ بٹور نے تک محدود کررکھی ہے لیکن ان باغات کا اپنا جو حسن اور دلکشی محض چند سال قبل تھی اور جو دلکشی بالی ووڈ کی عکس بند فلموں کی صورت میں آج بھی موجود اور دیکھی جاسکتی ہے وہ اب ننگی آنکھوں سے کہیں نظرنہیںآرہی ہے۔
ا س حوالہ سے ہارون کا حوالہ دیاجائے تو یہ ایک ویران مقام سے بھی ابتر دکھائی دے رہا ہے، دن بھر ہر ایک انچ کو پانی میں ڈبوکے رکھاجارہاہے ، ایک انچ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی سیاح اور اس کے ساتھ فیملی کے دوسرے ممبران قدم روک کر کچھ دیر کے لئے بیٹھ سکیں، یہی حال شالیمار باغ کا ہے جہاں مرمت اور تجدید کا کام ہاتھ میںتو لیاگیا لیکن تکمیل کب تک ، کچھ کہانہیں جاسکتا ۔
پہلگام کی خوبصورتی اور دیدہ زیبی کاراز اس کے قلب وجگر کے راستے بہتے لدر میں ہے لیکن افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ نہ صرف مقامی آبادی بحیثیت سیاح بلکہ باہر سے سیاحت پر آنے والے مخصوص فکرا ور ذہنیت کے حامل وہ لوگ جو پہلگام کی سیاحت پر ہوتے ہیں لدر کی پانیوں کو گندہ اور آلودہ بنانے میں لذت محسوس کررہے ہیں۔دُنیا میںبہت سارے اقوام ایسے ہیں جہاں قدرت نے انہیں اپنے طور سے کوئی خوبصورتی عطانہیںکی ہے لیکن انہوںنے اپنی طبع تفریح کیلئے اپنے ہاتھوں سے مصنوعی سیاحتی مقامات تعمیر کئے، مصنوعی جھیلوں کی تعمیر کو یقینی بنایا اور ان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ سب کچھ کیا جس کی ضرورت اور طلب محسوس کی گئی۔ پھر ان کے رکھ رکھائو کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ انہوںنے بڑی محنت اور بے پناہ سرمایہ کاری سے ان مقامات کو جنم دیا ہے۔لہٰذا وہ حساسیت سے بھی کام لے رہے ہیں اور ذمہ دارانہ اپروچ کا بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔لیکن ہم میں نہ احساس شہریت ہے اور نہ ذمہ دارانہ اپروچ ۔
اس سمت میں کچھ ایسے ٹھوس اور تدارکی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ تمام سیاحتی مقامات کا جو کچھ بھی حسن ہے اس کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ تاکہ نہ صرف یہ آنے والے نسلوں کیلئے منفع بخش ثابت رہے بلکہ دُنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی اور توجہ کا اولین مرکز بھی بنارہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔