کپواڑہ//
جموں کشمیر کے اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی) نے ضلع کپواڑہ میں چھ کروڑ اسٹریٹ سولر لائٹس گھوٹالے کا پردہ فاش کیا تھا جس کے بعد کشمیر پاؤر ڈسٹریبیوشن کمپنی لمٹیڈ(کے پی ڈی سی ایل) نے ایگزیکٹو انجینئر سمیت دو انجینئر کے خلاف کارروائی کی ہے۔
کے پی ڈی سی ایل نے اس گھوٹالے میں مبینہ طور ملوث ایکزیکٹو انجینئر شمیم احمد شمیم، اسسٹنٹ انجینئر منظور حسن چودھری اور جونیئر انجینئر مدثر اسماعیل کو اٹیچ کیا ہے۔
کے پی ڈی سی ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر یاسن چودھری نے اس ضمن میں حکمنامہ جاری کیا ہے ،جس کے مطابق ان تینوں انجینئرز کو ہیڈ کوارٹر کے پی ڈی سی ایل اٹیچ کیا گیا ہے، جبکہ سپرنٹنڈنٹ انجینئر سوپور کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
غور طلب ہے کہ ضلع کپواڑہ میں مزکورہ انجینئرز نے اسٹریٹ سولر لائٹز کو تعینات کرنے کے عوض سے سرکاری خزانہ سے چھ کروڑ روپئے کے بلز نکالے ہیں، تاہم زمینی سطح پر تحقیقات میں یہ پایا گیا کہ یہ لائٹز تعینات ہی نہیں کئے گئے ہیں۔
اس گھوٹالے کا پردہ فاش اینٹی کرپشن بیورو نے اپنی تحقیقات میں کیا تھا جب ان کو اس معاملے کے متعلق شکایات موصول ہوئی تھی۔
اے سی بی نے کہا کہ الیکٹرک ڈویڑن کپواڑہ اور ترہگام نے ۲ہرزا ۶۸۵سولر لائٹس کو تعینات کرنے کے نام پر چھ کروڑ بارہ لاکھ روپے نکالے ہے۔اے سی بی کے مطابق ای سی بی کی ٹیم اور متعلقہ نائب تحصیلداران (ایکزیکٹو مجسٹریٹز) نے مختلف مقامات پر ان سولر لائٹز کی تعیناتی کے متعلق تحقیقات کی اور وہاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ضلع میں کسی بھی مقام پر کوئی سولر لائٹ نہیں لگائی گئی ہے۔
اے سی بی کے مطابق کپواڑہ کے ضلع کمشنر ڈیوفوڈ دتاتارے ساگر نے ۱۱؍ اور۱۳ مارچ کو سولر لائٹس کو تعینات کرنے کے لئے دو منصوبوں کو منظوری دی ہے، جس کے بعد ایگزیکٹو انجینئر کے پی ڈی سی ایل شمیم احمد شمیم نے ۱۱؍ اور۱۳ مارچ کو ہی ٹنڈر نکالے اور چار نجی کمپنیوں کو یہ لائٹس تعینات کرنے کے ٹھیکے دئے۔
اے سی بی کے مطابق کپواڑہ اور ترہگام سب ڈوڑن کے اسسٹنٹ ایکزیکٹو انجینئرز نے ان ٹھیکوں کو منظوری نہیں دی کیونکہ انہوں نے لکھا کہ ان کے دفاتر نے ان کاموں کے متعلق کوئی تخمینہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کو سولر لائٹز کی تعیناتی کے متعلق کوئی اطلاع دی گئی تھی۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ چونکہ سنہ ۲۰۲۱؍ اور ۲۰۲۲ مالی سال ختم ہونے کے قریب ہے لہذا دو یا چار روز میں اتنے بڑے رقم کے کام مکمل کرنا ناممکن ہے
اے سی بی کے مطابق ایگزیکٹو انجینئر نے اسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئرز کے بجائے اسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر سٹورز، مدثر اسماعیل اور جونیئر انجینئر منظور حسن چودھری، کے دستخط لئے ہیں اور چھ کروڑ روپئے کی بلز نکالے۔
اے سی بی نے کہا یہ بلز غیر قانونی طور نکالے گئے ہیں اور اس میں ملوث افسران کے خلاف مجرمانہ کاروائی الگ طور سے کی جائے گی۔اے سی بی نے انتظامیہ کو تجویز دی ہے کہ ان افسران کے متعلق کارروائی کی جائے اور یہ ٹھیکے منسوخ کئے جائے اور نجی کمپنیوں کو اجرا کئے گئے رقم کو ان سے واپس لی جائے۔تاہم اس گھوٹالے میں مبینہ طور ملوث ڈپٹی کمشنر کپواڑہ ڈیوفوڈ دتاتارے ساگر کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔