نئی دہلی//
کانگریس نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے فوجیوں کا احترام کرنے کے بیان سے اتفاق کیا لیکن کہا کہ حکومت کو چینی سفیر کو طلب کر کے چینی مداخلت پر سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت پیغام دینا چاہئے تھا۔
کانگریس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے انچارج جے رام رمیش نے پیر کوجے شنکر کے تبصرے پر لوک سبھا میں کہا’’ہم وزیر خارجہ کے اس بیان سے پوری طرح متفق ہیں کہ ہمارے جوانوں کا’احترام، تعریف اور اعزاز کیا جانا چاہئے‘لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ’معمول پر نہیں‘ہیں۔ پھر کیوں ہم نے چینی سفیر کو بلا کر اعتراض نامہ حوالے نہیں کیا جیسا کہ ہم پاکستان کے ہائی کمشنر کے ساتھ کرتے ہیں‘‘۔
فوجیوں کی’عزت‘کی بات تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے فوجی سرحد پر دشمن کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں لیکن سوال کیا کہ کیا یہ بھی احترام کا احساس تھا جب ۱۹جون ۲۰۲۰کو مودی کو ۲۰جوانوں کی شہادت پر یہ کہنے کی تحریک ملی کہ ’’نہ کوئی ہماری سرحد میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی کوئی گھسا ہوا ہے ‘‘۔
کانگریسی لیڈر نے یہ سوال بھی کیا کہ جب چین کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں تو ۲۲۔۲۰۲۱میں چین پر تجارتی انحصار کو ریکارڈ بلندی تک کیوں پہنچنے دیا گیا جس میں۹۵؍ ارب ڈالر کی درآمدات اور۲۲۔۲۰۲۱ میں ۷۴؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ تھا ۔ ستمبر میں روس کے ووستوک ۲۲مشق میں ہندوستانی فوجیوں نے چین کے ساتھ فوجی مشقیں کیوں کیں؟
رمیش نے کہا’’وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ چین کو یکطرفہ طور پر ایل اے سی کی پوزیشن تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن چینی فوجیوں نے ڈیپسانگ کے اندر۱۸کلومیٹر اندر آنے کے بعد گزشتہ دو برسوں سے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی ہے ۔ اس کی وجہ سے ہمارے فوجی مشرقی لداخ میں ۱۰۰۰مربع کلومیٹر کے علاقے میں گشت کرنے سے قاصر ہیں جہاں وہ پہلے گشت کیا کرتے تھے ۔ وزیر خارجہ کب واضح الفاظ میں اعلان کریں گے کہ۲۰۲۰سے پہلے جمود کو بحال کرنا ہمارا مقصد ہے ‘‘۔
کانگریس کے لیڈر نے سوال کیا’’وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم چین پر دباؤ بنا رہے ہیں، پھر ہم نے۲۰۲۰سے پہلے جمود کی مکمل بحالی کو یقینی بنائے بغیر کیلاش پہاڑی سلسلے میں اپنی حکمت عملی سے فائدہ مند پوزیشن سے کیوں پیچھے ہٹ گئے ۔ ہم چینیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کیلئے زیادہ جارحانہ اور جوابی کارروائی کیوں نہیں کرتے جیسا کہ ہم نے ۱۹۸۶؍اور۲۰۱۳میں کیا تھا۔