سرینگر// (ویب ڈیسک)
امریکہ نے اتوار کے روز کابل میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے مفرور اور اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کو ختم کر دیا، یہ خطے سے اس کے انخلاء کے بعد پہلا حملہ تھا۔
حملے کے بعد طالبان اور اس کے سرپرست پاکستان کے درمیان اس بارے میں لڑائی شروع ہو گئی کہ الظواہریکو کس نے امریکہ کو’ فروخت‘ کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ کابل میں سی آئی اے نے ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو امریکی ہلاک کر دیا۔ ان کی گرفتاری میں مدد کرنے پر ۲۵ ملین ڈالرز کا انعام مقرر تھا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایمن الظواہری متعدد امریکی شہریوں کے قتل کے ذمہ دار تھے اور امریکیوں کے قاتل کہیں بھی چھپ جائیں ہم انھیں ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس میں تاخیر بھی ہو تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو امریکی حکام نے بتایا کہ ایمن الظواہری کو اْس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کابل میں اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے اور اہل خانہ اندر موجود تھے۔
پاکستان کے آرمی چیف ‘جنرل باجوہ کی جانب سے واشنگٹن سے مالی امداد کی حالیہ اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ تجزیہ کاروں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان نے الظواہری کو امریکہ کا پھر منظور نظر بننے اور مالی امداد حاصل کرنے جس میں آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ بھی شامل ہے‘ کیلئے قربان کیا۔
افغان مزاحمتی رہنما امراللہ صالح ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے نشاندہی کی کہ ’پاکستان اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں افغانستان سے خطرے کی رقم کمانے اور سکیورٹی پر بینکنگ کے ذریعے اپنے مالیاتی بحران کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے‘۔
ولسن سنٹر کے جنوبی ایشیا کے اسکالر مائیکل کوگلمین نے ٹویٹ کیا’’جب امریکا نے بن لادن کو ختم کیا تو پاکستان کے ساتھ تعلقات ایک نئی نچلی سطح پر آگئے۔ امریکہ کی جانب سے الظواہری کو ممکنہ طور پر پاکستانی مدد دسے ختم کرنے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سالوں میں ان کا سب سے بڑا فروغ مل سکتا ہے‘‘۔
القاعدہ کے مفرور رہنما کو مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک ‘جسے آئی ایس آئی کا ایک مجازی بازو سمجھا جاتا ہے، اور جو اب افغانستان میں قدیم حکمران گروہ کا حصہ ہے‘کے رہنماؤں نے کابل میں ایک محفوظ گھر میں لایا تھا۔