پاکستانی پنجاب ، جو ملک کا آبادی اور رتبہ کے تعلق سے سب سے بڑا صوبہ ہے فی الوقت سیاسی، حکومتی، اخلاقی اورآئینی بحران سے جھوج رہا ہے۔ اس صوبے کا سابق وزیراعلیٰ عثمان بزاد جو عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف سے وابستہ ہے، کا دور سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں، کورپشن، ماردھاڑ ، اغوا ، گمشدگیوں اور غنڈہ گردی کے حوالہ سے اس کے مخالفین عبارت قرار دیتے رہے ہیں کے بعد ن لیگ نے اقتدار پراپنے حمایتوں کی مدد سے قبضہ کرلیا لیکن یہ دور بھی پہلے دن سے لے کرا ب تک سنگین نوعیت کے چیلنجوں سے گذررہا ہے۔
قومی سطح پر عمران خان کی قیادت میں کچھ جماعتی اتحاد اور ن لیگ اور زرداری کی قیادت میں دوسرا جماعتی اتحاد جو کچھ کھیل کھیل رہے ہیں اور ان کے اس کھیل کو کچھ معتبراداروں کی سافٹ اور ہارڈ معاونت اور سرپرستی نے نہ صرف پنجاب بلکہ بحیثیت مجموعی سارے پاکستان کو ایک اصطلاح میں ایک بدترین ناکام سٹیٹ کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔
نہ صرف سیاسی، مذہبی اور سول سوسائٹی سے وابستہ حلقے مختلف نظریات کے حوالہ سے باہم متضاد خانوں اور وفاداریوں میں تقسیم درتقسیم ہیں بلکہ پاکستان کے نظریے کی بُنیادوں کیلئے بھی خطرہ بن چکے ہیں ۔ ملک کی معیشت بے حد سبک رفتاری کے ساتھ زمین بوس ہوتی جارہی ہے،سیاسی ، اقتصادی اور دوسرے مافیاز گرہ گٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے میر صادق اور میر جعفر کی یاد تازہ کررہے ہیں۔
سابق وزیراعظم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی قیادت میں حکومت کو اپوزیشن کے اتحاد نے عدم اعتماد کا راستہ اختیار کرکے اقتدار سے بے دخل کردیا جس حوالہ سے زبان زد عام شہرت یافتہ خلائی مخلوق نے اعلان کیا کہ اس کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ نیوٹرل ہے اور آئندہ بھی نیوٹرل ہی بنی رہیگی لیکن کچھ ہی مہینے گذر ے کہ اب یہی نیوٹرل جسے عمران خان نے کبھی ’جانور‘ تو کبھی کچھ اور خطاب سے نوازا پھر سے بڑی خاموشی کے ساتھ مداخلت پر اُترآئی ہے، کچھ حلقے اسٹیبلشمنٹ کے اس سرنو رول کو سافٹ مداخلت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن درپردہ حقیقت یہ ہے کہ ’دسترخوان کا چسکا جس کسی کے منہ کو لگ جاتا ہے وہ اُس دسترخوان سے ہٹ جانے کی لاکھ کوشش کرے ہٹ نہیں پاتا‘۔پاکستان کی خلائی مخلوق کے بارے میں اس کے علاوہ اور کچھ کہاجاسکتا ہے اور نہ کوئی اور اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔
دعویٰ سیاسی ، انتظامی اور معاشرتی سطح پر ’جمہوریت‘ کا کیاجارہاہے لیکن پہلے دن سے یہ کبھی جمہوریت نہیں تھا۔ پاکستان کی سیاست، معاشرت اور انتظامیہ پر یاتو مارشل لاء کا راج تاج مسلط رہا یا وقفے وقفے سے عدلیہ سے وابستہ کچھ سرکردہ ججز نے کرنلوں اور جنرلوں کی معاونت سے اپنی حکمرانیوں کو مسلط کیا۔ کوئی سویلین حکومت برسراقتدار آبھی گئی تواس مخصوص گٹھ جوڑ نے انہیں پوری معیاد تک اقتدار پر بیٹھنے نہیں دیا۔ ان سب کو کورپشن ، ملک کے اسٹرٹیجک اثاثوں کے ساتھ بددیانتی، لوٹ اور کنبہ پروری ایسے الزامات اور دعوئوں کی آڑمیں ان سویلین حکومتوں کو برطرف کیاجاتارہا۔
ہندوستان میںایک گاندھی کو راستے کا پتھر قرار دے کر نشانہ بنایاگیا لیکن پاکستان میںکئی سربراہان ملک کو نہ صرف گولیوں کا نشانہ بناکر ابدی نیند سلادیاگیا یا تختہ دار پر لٹکا کر خونی پیاس بجھاتے بجھاتے اپنے کارپوریٹ مفادات کا درپردہ تحفظ کے راستے محفوظ اور یقینی بنائے جاتے رہے ۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان جمہوریت سے محروم ہوتا رہا اور اس کی جگہ گالی گلوچ ، بداخلاقی، اغوا، گمشدگیوں ، حراستی ہلاکتوں، سیاسی سازشوں اور محلاتی شازشوں ، مذہبی جنونیت کے حامل کرداروں اور اداروں کی ہوس گیری اور سب سے بڑھ کر نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ کا استعمال اور مذہب کی غلط اور من چاہی تشریحات کیلئے زمین ہموار کی جاتی رہی۔
آج کی تاریخ میں بھی یہی سب کچھ ہورہاہے اسی راستے کو اختیار کیاجارہاہے۔ سیاسی گھوڑوں کی خریدوفروخت اس انداز میں کہ جیسے مارکیٹ سے گاجر مولیوں کی خریداری کی جاتی ہے۔ بکنے والے اور خریدنے والے کسی آئینی، کسی اخلاقی اقدار اور کسی تہذیب کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ پاکستان کے وسائل بشمول زمین اور اثاثوں کی من چاہی بندربانٹ ملک کے سیاستدانوں بعض ججوں اور جنرلوں اور کرنلوں کی تابع ہے۔ ہر ریٹائر ہونے والے فوجی جنرل اور کرنل کو سینکڑوں کنال اراضی کا گفٹ کے ساتھ الوداع کیاجارہاہے جبکہ بعض ججوں کی’معاونتی خدمات‘ کے عوض ان کے ہاتھ میں بھی مختلف پوش رہائشی بستیوں میں کروڑوں مالیت کے پلاٹ کوڑیوں کے بھائو میں الاٹ کرنے کا کلچر پروان چڑھایاجاتارہاہے۔
جن سیاستدانوں اور خلائی مخلوق نے گذرے ۷۵ سال کے دوران اپنی شکم پری کی اور ملک کو جس راستے پر ڈالدیایا عالمی سطح پر ملکوں کی رینکنگ کے حوالہ سے پاکستان اب جمہوری ملکوں کی صف میں نہیں بلکہ ہائبرڈ جمہوریت کے زمرے میں شمار کیاجارہاہے۔ معلوم نہیں کہ پاکستان کو کیوں ہائبرڈ کاراستہ زیادہ پسند ہے جبکہ جموںوکشمیرمیں دراندازی کے حوالہ سے بھی اسی راستے کو بروئے کار لاکر بدامنی پھیلائی جارہی ہے۔
حالات اُس ملک کے ایسے ہی رہے اور اسی ڈگر پر پاکستان کو آگے بڑھایاجاتارہا تو یہ خطے کے ہمسایہ ملکوں کی وحدت، یکجہتی ،امن وسلامتی اور سالمیت کیلئے خطرہ عظیم کے طور پراُبھر سکتا ہے۔اس صورت میں سب سے بڑھ کر اس کے جوہری اثاثے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے بلکہ غلط ہاتھوں میں پڑ ھ کر وسیع تباہی کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔