تحریر:ہارون رشید شاہ
چلئے صاحب یہ ایک بار پھر اپنا سر اٹھا رہے ہیں… کورونا وائرس اور اس کے ماہرین بھی ۔جوں جوں کورونا وائرس کے مثبت معاملات میں ایک بار پھر اضافہ ہوتا جارہاہے ‘یہ ماہرین … جنہیں آپ نام نہاد بھی کہہ سکتے ہیں ایک بار پھر اپنے قیمتی مشوروں سے قوم کو نواز رہے ہیں ۔یہ اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ… کہ انہیں کورونا سے بچنے کیلئے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں ۔فیس بک اور شوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارموں پر لوگ‘ معاف کیجئے گا کہ ہمارا مطلب ہے کہ ماہرین آپ اور ہم جیسے عام لوگوں کو اپنے قیمتی مشورے دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ وبا کب اور کیسے ہم سے رخصت ہو گی ‘یہ تک بتاتے ہیں ۔ اب بھیا ہم تو آزادیٔ اظہار کے حق کو سر تسلیم خم کر قبول کرنے والوں میں سے ہیں ‘ اس لئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے … ہمیں شوسل میڈیا کے ان ’ماہرین ‘ ،ان کے مشوروں اور آراء پرکوئی اعتراض نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ہم ان پریہ الزا م بھی نہیں لگا رہے ہیں کہ یہ حضرات غیر ضروری طور پر لوگوں کو اپنے ان مشوروں اور آراء سے نواز رہے ہیں کہ ہم جہاں کے واسی ہیں وہاں تو زبان ترستی ہے کچھ کہنے اور…اور کان کچھ سننے کو ۔ ملک کشمیر میں کورونا وائرس پھر سے اپنا سر اٹھا رہا ہے… آہستہ سے ہی سہی لیکن اٹھا رہا ہے … وائرس کا اب بھی ہنی مون چل رہا ہے یا نہیں ‘ لیکن ان لوگوںکی زبان چل رہی ہے‘ جن کی زبان بالکل بھی نہیں چلنی چاہئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کورونا کو اب بھی سازش قرار دیتے ہیں … اب بھی ؟ جی ہاں اب بھی ‘ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں اموات کے باجوو‘ کروڑوں مثبت کیسوں کے باوجود ‘ آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے ایڈیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے باوجود بھی یہ لوگ کرونا کو وائرس نہیں بلکہ ایک سازش کہہ رہے ہیں… کیوں کہہ رہے ہیںہم نہیں جانتے ہیں… بالکل بھی نہیں جانتے ہیں کہ … کہ اگر ہم کچھ جانتے ہیں تو… تو یہ جانتے ہیں کہ وائرس ایک حقیقت ہے ‘ایک وائرس سے بیمار پڑنا بھی حقیقت ہے ‘ اس وائرس سے مرجانا بھی ایک حقیقت ہے …اسی طرح جس طرح یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کے’ماہرین‘ ایک حقیقت ہے جو … جو لوگوں کو اپنے مفید مشوروں سے نواز رہے ہیں… ایسے مشوروں سے جن کا کووڈ اور نہ اور اس کے علاج سے کوئی تعلق ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟