جموں//
جموں کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) دلباغ سنگھ نے پیر کو کہا کہ لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے دہشت گرد طالب حسین شاہ کا مختصر وقت کیلئے ایک سیاسی جماعت سے تعلق تھا اور اس نے خود کو ایک صحافی کے طور پر ظاہر کیا۔
پولیس سربراہ نے تاہم کہا کہ اس قسم کے عناصر اپنی ملک دشمن سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کہیں بھی چھپنے کی کوششیں جاری رکھیں گے اور پولیس ان کی گرفتاری کی پابند ہے۔
ڈی جی پی ضلع ریاسی کے مہور علاقے میں نامہ نگاروں سے بات چیت کر رہے تھے‘ جہاں وہ گاؤں والوں سے ان کی تعریف کرنے گئے تھے جنہوں نے ایل ای ٹی کے دو انتہائی مطلوب دہشت گردوں ‘ طالب حسین شاہ راجوری میں حالیہ سلسلہ وار دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ، اور پلوامہ کے اس کے ساتھی فیصل احمد ڈار‘کو گرفتار کرنے میں پولیس کی مدد کی۔
دونوں دہشت گردوں کو اتوار کی صبح دور دراز کے ٹکسن ڈھوک کے دیہاتیوں نے قابو کر لیا اور بعد میں پولیس کے حوالے کر دیا۔ ان کے پاس سے دو اے کے اسالٹ رائفلیں، ایک پستول، سات دستی بم اور بڑی مقدار میں گولہ بارود برآمد ہوا۔
سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں مبینہ طور پر شاہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر بی جے پی کے سربراہ رویندر رینا مبینہ طور پر شاہ کو گلدستہ اور پارٹی لیڈر شیخ بشیر کی طرف سے ۹ مئی کو جاری کردہ ایک خط کے ساتھ پیش کر رہے ہیں، جس میں انہیں پارٹی کے جموں صوبہ کے اقلیتی مورچہ کے آئی ٹی اور سوشل میڈیا انچارج کا کردار سونپا گیا ہے۔
بی جے پی کے ساتھ شاہ کی وابستگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، ڈی جی پی نے کہا’’ایسے عناصر ہمیشہ ایسی جگہوں پر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں وہ اپنی (ملک دشمن) سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ زیادہ عرصہ پارٹی میں نہیں رہے۔ پارٹی کے ساتھ ان کی مختصر وابستگی تھی‘‘۔
بی جے پی میں شامل ہونے کے پیچھے شاہ کے ارادے کے بارے میں پوچھے جانے پر پولیس سربراہ نے کہا ’’ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور ان سے پوچھ گچھ مکمل ہونے کے بعد ہم آپ کے ساتھ تفصیلات شیئر کریں گے۔‘‘
ڈی جی پی نے کہا کہ دشمن عناصر حفاظتی انتظامات کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کاکہنا تھا’’یہ کسی سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ (شاہ) بھی خود کو میڈیا پرسن ظاہر کر رہے تھے۔ وہ گرفتار ہونے والا پہلا میڈیا پرسن نہیں ہے کیونکہ ہم ماضی میں بھی ایسے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسی گرفتاریاں ہوں گی‘‘۔
ڈی جی پی نے کہا’’وہ پناہ لینے کی کوشش کریں گے اور ہم ان کی شناخت اور گرفتاری کے پابند ہیں‘‘۔
دلباغ‘ جنہوں نے دو دہشت گردوں کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے ان پر قابو پانے والے گاؤں والوں کیلئے۲ لاکھ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا‘ کہا کہ پاکستان اور اس کی ایجنسیاں دہشت گرد گروپوں کے ذریعے جموں صوبے میں دہشت گردی کو بحال کرنے کی بار بار کوششیں کر رہی ہیں لیکن ’’جموں پولیس نے ان کی کوششوں کو ناکام بنانے میں قابل تعریف کردار ادا کیا ہے‘‘۔
ڈی جی پی نے کہا ’’میں اپنے نوجوان دوستوں کی تعریف کرنے آیا ہوں جنہوں نے مثالی ہمت کا مظاہرہ کیا اور دو بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا نہتے مقابلہ کیا، یہ واضح پیغام دیا کہ ہم دہشت گردی کی احیاء کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔
دلباغ نے کہا کہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے دہشت گردی کا وحشیانہ چہرہ اس وقت دیکھا جب دہشت گرد ان کے گھروں میں زبردستی گھس جاتے، پناہ لیتے اور ان کی خواتین کا استحصال بھی کرتے۔دلباغ نے کہا ’’گاؤں والوں نے بہت اچھا کام کیا ہے جو قابل تعریف ہے۔‘‘
ڈی جی پی نے مزید کہا کہ دہشت گرد ’’پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کے کہنے پر’معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں‘‘۔جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد کے بجبہاڑہ علاقے میں اتوار کو پولیس اہلکاروں فردوس احمد پر دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی جی پی نے کہا کہ پولیس اہلکار نے اپنے حملہ آوروں کو للکارا اور دو گولیاں لگنے سے زخمی ہونے سے بچ گئے۔
دلباغ نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ جموں و کشمیر کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی پاکستانی سازش کا حصہ ہے۔انہوںنے کہا کہ کشمیر کے لوگ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کامیاب ہو رہی ہیں۔
ڈی جی پی نے کہا کہ عوام ہمیشہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ڈی جی پی نے مزید کہا کہ ’’ہر کمیونٹی میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں، پولیس کے ساتھ ہیں اور ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘‘