تحریر:ہارون رشید شاہ
اس کے چہرے کی جھریاں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ اس خاتون نے زندگی کی انگنت بہاریں دیکھ لی ہیں۔یہ معمر خاتون اُن درجنوں خواتین کے ہمراہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑی تھی جنہوں نے بڑے بڑے پتھر ڈال کر راستہ روک لیا تھا ۔ خواتین پینے کے پانی کی قلت کیخلاف مظاہر ہ کررہی تھیں کہ ان کاکہنا تھا کہ چار دنوں سے حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی پانی کا ایک قطرہ بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے ۔اس احتجاج کی وجہ سے میرے علاوہ درجنوں لوگ گاڑیوں میں درماندہ ہوکے رہ گئے ۔میں نے انتظار کیا … تھوڑ اور انتظار کیا…لیکن صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوا تو میں اس معمرخاتون کے پاس گیا … یہ مجمعے سے تھوڑا ہٹ کر کھڑی تھی۔ میں نے اسے کہا’’اماں جلدی ہے ‘کہیں جانا ہے ۔میں آپ لوگوں کی مشکل کو سمجھتا ہوں ‘ پانی کے بغیر کوئی گزارہ نہیں کر سکتا ہے ‘لیکن جو لوگ یہاں آپ کے احتجاج کی وجہ سے درماندہ ہیں اس میں ان کی کوئی خطا نہیں … پھر انہیں یہ سزا کیوں …؟‘‘معمر خاتون نے بڑے نرم لہجے میں جواب دیا ’’بیٹا میں بھی آپ کی مشکل کو سمجھتی ہوں ‘جانتی ہوں آپ کی کوئی خطا نہیں ہے … لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔‘‘خاتون کا لہجہ یقینا نرم تھا ‘ لیکن وہ اپنے اس موقف پر چٹان کی طرح ڈٹی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے … ڈی سی کے آنے تک راستہ روکے رکھیں گے ۔ میں نے خاتون سے کہا ’’اماں یہ احتجاج آپ ڈی سی کے دفتر کے سامنے کریں تو شاید آپ کا مسئلہ جلد ہو جائیگا ؟‘‘معمر خاتون نے اس پر کہا ’’ڈی سی کس بات کی تنخواہ لیتا ہے ‘ وہ یہاں کیوں نہیں آئیگا ‘ اسے یہاں آنا پڑے گا ‘‘۔ڈی سی تو نہیں آیا لیکن کچھ دیر بعد علاقے کا ایس ایچ او ضرور آیا اور خواتین کو راستہ کھولنے پر قائل کیا ۔میں اور درجنوں درماندہ لوگوں نے اپنی راہ لی لیکن اس معمر خاتون کی یہ بات میری ہمسفر بن گئی ’ ڈی سی کو آنا ہی پڑے گا کہ وہ پھر کس بات کی تنخواہ لیتا ہے‘ ۔شاید کبھی ہمارا کشمیر ایسا رہاہو… شاید کبھی کشمیر میں لوگوں کو… عام لوگوں کو سرکاری مشینری پر اس قدر بھروسہ اور اعتماد تھا… جواب دہی رہی ہوگی… اس قدر جواب دہی کہ لوگوں کو توقع ہوتی ہوگی کہ حکام ان کے گھر تک…ان کی دہلیز پر چل کر ان کے مسائل حل کریں گے ۔شاید یہ معمر خاتون بھی اُس کشمیر کا حصہ رہی ہو گی … شاید اس نے بھی وہ کشمیر دیکھا ہو گا … شاید۔ ہے نا؟