سرینگر//
مرکزی وزیر برائے بجلی ہاوسنگ اور شہری امور منوہر لال کھٹّر نے کہا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی کے بعد ہندوستان کو چاہئے کہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آبی وسائل کے استعمال اور پن بجلی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو مزید وسعت دے ۔
کھٹر نے جمعرات کے روز سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند جموں و کشمیر میں پن بجلی کے نئے منصوبوں پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔
مرکزی وزیر نے کہا’’انڈس واٹر ٹریٹی چونکہ فی الحال معطل ہے ، اس لیے ہمیں اس صورتحال کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے پن بجلی اور آبی منصوبوں کو مکمل رفتار سے آگے بڑھانا ہوگا‘‘۔
کھٹّر نے کہا کہ جہلم، چناب اور سندھ ندیوں پر جاری پن بجلی منصوبوں پر بہتر پیش رفت ہو رہی ہے ، جہاں این ایچ پی سی اور مقامی کمپنیوں کی باہمی شراکت سے کام جاری ہے ۔
انہوں نے کہا’’حکومت نہ صرف موجودہ منصوبوں کی صلاحیت بڑھا رہی ہے بلکہ انڈس واٹر معاہدے کی معطلی کے تناظر میں نئے منصوبوں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ‘‘۔
واضح رہے کہ مرکز نے یہ معاہدہ ۲۲؍اپریل کو پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے ، جس میں۲۶؍افراد جاں بحق ہوئے ، کے بعد معطل کر دیا تھا۔
کھٹّر نے جموں و کشمیر میں اسمارٹ اور پری پیڈ میٹرنگ کے شعبے میں کی گئی پیش رفت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں جموں و کشمیر نے ملک کی تمام ریاستوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلا مقام حاصل کیا ہے ۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ جموں و کشمیر میں بجلی کی تقسیم اور توانائی کے نقصان کے شعبے میں قومی اوسط سے زیادہ مسائل موجود ہیں۔ لیکن جس تیزی سے ان نقصانات میں کمی لائی جا رہی ہے ، وہ قابل ستائش ہے ۔
مرکزی وزیر نے مزید کہا کہ اگرچہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں کچھ وقت تک خامیاں رہیں، جس کی وجہ سے اے ٹی اینڈ سی نقصانات میں اضافہ ہوا، تاہم اب ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کھٹّر نے مزید بتایا کہ مرکز کی طرف سے جموں و کشمیر میں موجودہ اور نئے پن بجلی منصوبوں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ خطے میں بجلی کی فراہمی مزید بہتر ہو اور نقصانات میں کمی آئے ۔
مرکزی وزیر نے بجلی شعبے میں مالی خسارے ، بالخصوص اوسط لاگتِ ترسیل اور اوسط آمدنی کے درمیان فرق کو بھی اجاگر کیا، جسے ابھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا، گزشتہ چار برسوں میں بجلی کے شعبے میں خاصی بہتری دیکھنے کو ملی ہے ، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے ۔
اس دوران جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے جمعرات کو کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کی بحالی پر مرکز کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے جو سندھ آبی معاہدے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں معاہدہ معطل ہونے کے بعد عبداللہ نے کہا کہ دو منصوبے ہیں…ایک کشمیر میں اور دوسرا جموں میں‘جن پر جلد ہی کام شروع ہو سکتا ہے۔
عبداللہ نے یہاں یہ پوچھے جانے پر کہا کہ کیا حکومت آئی ڈبلیو ٹی کے رکنے کا فائدہ اٹھائے گی‘ کہا’’سندھ آبی معاہدہ کی معطلی کے بعد ، ہمارے پاس دو منصوبے ہیں جن پر جلد ہی کام شروع ہو سکتا ہے ، ایک کشمیر میں ہے اور دوسرا جموں میں ہے۔ اب ، دونوں منصوبوں کے بارے میں مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت جاری ہے ‘‘۔
وزیر اعلی یہاں ایس کے آئی سی سی میں بجلی ، ہاؤسنگ اور شہری امور کے مرکزی وزیر منوہر لال کھٹر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پچھلے مہینے ، عمرعبداللہ نے شمالی کشمیر کے باندی پورہ ضلع میں ولر جھیل پر تلبل نیویگیشن پروجیکٹ کی بحالی کی حمایت کی۔
پوسٹ کو لے کر ، وزیر اعلی نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا اب کام دوبارہ شروع کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان نے آئی ڈبلیو ٹی کو روک دیا ہے۔ تاہم عمرعبداللہ کی پوسٹ اس وقت تنازع میں پھنس گئی جب ان کی حریف اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ان پر’غیر ذمہ دارانہ‘ اور’خطرناک حد تک اشتعال انگیز‘ بیانات دینے کا الزام لگایا۔
تلبل نیویگیشن بیراج پر کام ۱۹۸۰ کی دہائی کے اوائل میں شروع کیا گیا تھا ، لیکن پاکستان کے دباؤ میں انڈس واٹر ٹریٹی (آئی ڈبلیو ٹی) کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ترک کرنا پڑا۔
جائزہ اجلاس میں عمرعبداللہ نے کہا کہ اس کا تعلق وزارت بجلی اور وزارت ہاؤسنگ اور شہری امور کے تحت مرکزی اسپانسر شدہ منصوبوں اور اسکیموں سے ہے‘یہ دونوں محکمے جو وہ سنبھالتے ہیں۔
ان کاکہنا تھا’’مجموعی طور پر ، دونوں شعبوں میں پیش رفت کافی تسلی بخش رہی ہے۔ ہم نے ان شعبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جہاں ہمیں مرکز سے توقعات ہیں۔ کچھ جگہوں پر ، معمولی خامیاں تھیں ، اور ہمیں ان کو درست کرنے کے بارے میں تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ہم ان پر عمل درآمد کریں گے‘‘۔
محکمہ بجلی کو نقصانات کا سامنا کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ، وزیر اعلی نے کہا کہ یہ اب بھی قرض میں ہے کیونکہ جس قیمت پر حکومت بجلی خریدتی ہے اور سپلائی کرتی ہے اس میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا’’ہم سب کو رعایتی بنیاد پر بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ چاہے وہ گھریلو صارف ہو یا تجارتی صارف یا صنعتی صارف ، ہر کوئی رعایتی نرخوں پر بجلی لیتا ہے۔ لیکن یہ آہستہ آہستہ بہتر ہو جائے گا۔ ‘‘